الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
کتاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ وَمَا يَتَعَلَّقُ بِهِ قرآن کے فضائل اور متعلقہ امور 47. باب فَضْلِ مَنْ يَقُومُ بِالْقُرْآنِ وَيُعَلِّمُهُ وَفَضْلِ مَنْ تَعَلَّمَ حِكْمَةً مِنْ فِقْهٍ أَوْ غَيْرِهِ فَعَمِلَ بِهَا وَعَلَّمَهَا. باب: قرآن پر عمل کرنے والے اور اس کے سکھانے والے کی فضیلت۔
سالم اپنے باپ سے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رشک کسی اور پر نہیں مگر دو شخصوں پر ایک وہ جس کو اللہ تعالٰی نے قرآن عنایت کیا ہو اور وہ اس کو رات کو پڑھتا ہو اور دن کو بھی اور اس پر عمل کرتا ہو۔ دوسرے وہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو مال دیا ہو کہ وہ رات کو بھی خرچ کرتا ہو اور دن کو بھی۔“
سالم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رشک سوائے دو بندوں کے کسی پر جائز نہیں ایک جس کو اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب دی ہو اور اس پر دن رات عمل کرے اور ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالٰی نے مال دیا ہو اور وہ دن رات اس کو خرچ کرے۔“
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” حسد روا نہیں ہے مگر دو شخصوں پر، ایک وہ جسے اللہ نے مال دیا اور اس کے خرچ کرنے پر راہ حق کی توفیق دے۔ دوسرے وہ کہ اسے حکمت دی کہ اس کے موافق حکم کرتا ہے اور سکھلاتا ہے“ (حکمت سے مراد علم حدیث ہے)۔
عامر بن واثلہ سے روایت ہے کہ نافع بن عبدالحارث نے ملاقات کی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے عسفان میں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مکہ پر تحصیل دار بنا دیا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تم نے جنگل والوں پر کس کو تحصیل دار بنایا؟ انہوں نے کہا: ابن ابزی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابن ابزی کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک آزاد کردہ غلام ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے غلام کو ان پر تحصیل دار کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ کتاب اللہ کے قاری ہیں اور ترکہ کو خوب بانٹنا جانتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سنو تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”اللہ تعالٰی اس کتاب کے سبب سے کچھ لوگوں کو بلند کرے گا اور کچھ لوگوں کو گرا دے گا۔“
اس سند سے بھی مزکورہ بالا حدیث اسی طرح مروی ہے۔
|