الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْحَجِّ حج کے احکام و مسائل 29. بَابُ بَيَانِ أَنَّ الْمُحْرِمَ بِعُمْرَةٍ لَّا يَتَحَلَّلُ بِالطَّوَافِ قَبْلَ السَّعْيِ وَأَنَّ الْمُحْرِمَ بِحَجٍّ لَّا يَتَحَلَّلُ بِطَوَافِ الْقُدُومِ وَكَذٰلِكَ الْقَارِنُ باب: عمرہ کا احرام باندھنے والا سعی کرنے سے پہلے طواف کے ساتھ حلال نہیں ہو سکتا اور نہ ہی حج کا احرام باندھنے والا طواف قدوم سے پہلے حلال ہو سکتا ہے یعنی احرام نہیں کھول سکتا، اور اسی طرح قارن۔
محمد جو فرزند ہیں عبدالرحمٰن کے روایت ہے کہ ایک شخص نے عراق والوں سے ان سے کہا کہ سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے میرے لیے یہ پوچھ دو کہ جو شخص لبیک پکارے حج کی اور طواف کر چکے بیت اللہ کا تو وہ حلال ہو چکا یا یا نہیں؟ (یعنی احرام اس کا کھل گیا یا نہیں؟) پھر اگر وہ تم سے کہیں کہ نہیں حلال ہوا تو ان سے کہو کہ ایک شخص کہتا ہے کہ وہ حلال ہو گیا۔ محمد نے کہا کہ پھر میں نے عروہ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نہیں حلال ہوا وہ شخص جس نے لبیک حج کی پکاری ہے جب تک کہ حج پورا نہ کرے۔ میں نے کہا کہ ایک شخص کہتا ہے حلال ہو گیا، تو انہوں نے فرمایا: بہت برا کہتا ہے پھر وہ عراقی مجھے ملا اور مجھ سے پوچھا تو میں نے اس سے بیان کر دیا (یعنی جواب عروہ کا) تو اس نے کہا کہ ان سے کہو وہ یہ کہتا ہے کہ ایک شخص نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا اور اسماء اور زبیر نے بھی دونوں نے ایسا کیوں کیا؟ محمد نے کہا: میں پھر عروہ کے پاس گیا اور ان سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ کون شخص ہے؟ میں نے کہا: میں اس کا حال نہیں جانتا۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ میرے پاس آ کر کیوں نہیں پوچھ لیتا میں اس کو عراق والا جانتا ہوں، میں نے کہا میں نہیں جانتا (اس وقت تک شاید ان کو بھی معلوم نہ ہو کہ یہ عراقی ہے بعد میں معلوم ہوا ہو) تب عروہ نے کہا کہ اس نے جھوٹ کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حج کیا تو اس کی خبر دی مجھ کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ پہلے پہل جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو وضو کیا اور بیت اللہ کا طواف کیا (اس سے ثابت ہوا وضو کرنا اور امت کا اجماع ہے کہ وضو طواف کے لیے مشروع ہے مگر اس میں اختلاف ہے کہ واجب ہے یا شرط صحت طواف کی۔ امام مالک اور شافعی اور جمہور اور امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ شرط ہے یعنی بغیر وضو طواف صحیح نہیں اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ مستحب ہے اور شرط نہیں اور جمہور کی دلیل یہی حدیث ہے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول یہی اس کی دلیل ہے جو ترمذی رحمہ اللہ وغیرہ نے روایت کی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ طواف بیت اللہ کا نماز ہے مگر االلہ تعالیٰ نے اس میں کلام روا کر دیا اور اگرچہ صحیح یہی ہے کہ یہ روایت موقوف ہے اور قول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ہی ہے مگر جب قول صحابی مشہور ہو جائے اور کوئی اس پر انکار نہ کرے تو حجت ہے علی الخصوص جب فعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس پر دال ہو، پھر اس کی حجت ہونے میں کیا مقال ہے) پھر حج کیا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اور انہوں نے بھی پہلے طواف کیا۔ بیت اللہ کا اور نہ تھا کچھ سوا اس کے یہاں پر جو متن میں «لَمْ يَكُنْ غَيْرُهُ» ہے اور آگے بھی کئی جگہ یہی لفط آیا ہے اس کو قاضی عیاض رحمہ اللہ نے کہا کہ کہ کاتب کی غلطی ہے صحیح یہ ہے کہ «لَمْ يَكُنْ عُمْرَةٍ» یعنی پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے طواف کر کے اپنے حج کو عمرہ نہیں کر ڈالا کہ عمرہ کر کے احرام کھول دیتے ہوں اور حج کا احرام پھر دوبارہ مکہ سے باندھے ہوں جیسا مذہب ہے بعض کا اور یہی قول ہے ابن قیم رحمہ اللہ کا اور دلائل اس کے ہم اوپر بیان کر چکے ہیں اور اس سائل کا بھی مذہب یہی تھا اور نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ «غيره» کا لفظ غلط نہیں ہے بلکہ لفظ اور معنی دونوں صحیح ہیں یعنی «لم يكن غيره» تشدید یاء ہے یعنی پھر طواف کر کے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کو بدل نہیں ڈالا کہ حج کو عمرہ کر دیا ہو یا قران کر دیا ہو) پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی اس کی مثل کیا پھر حج کیا سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اور ان کو بھی میں نے دیکھا کہ پہلے طواف بیت اللہ کیا اور اس کو بدلا نہیں، پھر سیدنا معاویہ اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم نے بھی، پھر حج کیا میں نے اپنے باپ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ سو انہوں نے بھی پہلے طواف کیا بیت اللہ کا اور پھر اس کو بدلا نہیں، پھر میں نے مہاجرین اور انصار کو بھی یہی کرتے دیکھا، پھر میں نے سب کے اخیر میں جس کو ایسا کرتے دیکھا وہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہیں کہ انہوں نے بھی حج کو عمرہ کر کے توڑ نہیں ڈالا اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما تو ان کے پاس موجود ہیں یہ لوگ ان سے کیوں نہیں پوچھ لیتے اور اسی طرح جتنے لوگ گزر چکے ہیں سب لوگ جب مکہ میں قدم رکھتے تھے تو پہلے طواف کرتے تھے بیت اللہ کا اور پھر احرام نہیں کھولتے تھے (اس سے معلوم ہوا کہ طواف قدوم سے احرام نہیں کھلتا اور معلوم ہوا کہ باہر کا آدمی جب حرم میں داخل ہو تو پہلے طواف کرے۔ تحیتہ المسجد نہ پڑھے اور یہ سب باتیں متفق علیہ ہیں) اور میں نے اپنی والدہ اور خالہ کو دیکھا کہ جب یہ تشریف لاتیں۔ (یعنی جب تک حج اور عمرہ سے فارغ نہ ہو لیتیں) اور میری ماں نے مجھے خبر دی ہے کہ وہ آئیں اور ان کی بہن (یعنی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اور فلانے فلانے عمرہ لے کر پھر جب حجر اسود کو چھوا حلال ہو گئیں (یعنی بعد اتمام طواف اور سعی کے) اور اس عراقی نے جو کہا جھوٹ کہا (اس مسئلہ میں)۔
سیدہ اسماءرضی اللہ عنہا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ہم احرام باندھ کر نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے ساتھ ہدی ہو وہ تو اپنے احرام پر قائم رہے اور جس کے ساتھ نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے۔“ اور میرے ساتھ ہدی نہ تھی سو میں نے احرام کھول ڈالا اور زبیر کے ساتھ ہدی تھی (یہ ان کے شوہر تھے) سو انہوں نے احرام نہ کھولا اسماء کہتی ہیں کہ پھر میں نے اپنے کپڑے پہنے اور نکلی اور زبیر کے پاس جا بیٹھی تو انہوں نے کہا کہ تم میرے پاس سے اٹھ جاؤ (اس لیے میں احرام ہوں اور یہ احتیاط اور تقویٰ کی بات ہے کہ شاید بی بی کی طرف مائل ہوں اور شہوت سے چھیڑ چھاڑ ہو) تو میں نے ان سے کہا کہ کیا تم ڈرتے ہو کہ میں تمہارے اوپر کود پڑوں گی؟ (یہ انہوں نے ظرافت سے کہا کہ مرد ہو کر عورتوں سے کیا ڈرتے ہو)۔
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے وہی مضمون مروی ہے اور اس میں یہ ہے کہ جب سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کپڑے بدل کر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں تو انہوں نے فرمایا: تم مجھ سے دور ہو جاؤ، تم مجھ سے دور ہو جاؤ، تو انہوں نے کہا کہ کیا تم ڈرتے ہو کہ میں تم پر کود پڑوں گی؟
ابوالاسود سے روایت ہے کہ عبداللہ نے جو کہ مولیٰ ہیں سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا کے ان سے بیان کیا کہ اسماء ہمیشہ جب حجون کے اوپر گزرتیں (حجون بفتح قریب مکہ کی بلندی کی طرف اور جب جانے والا محصب پر چڑھتا ہے تو وہ داہنی طرف پڑتا ہے) فرماتیں کہ اللہ تعالیٰ رحمت کرے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ ہم ان کے ساتھ یہاں اترے ہیں اور ہمارے پاس ان دنوں بوجھے کم تھے اور سواریاں تھوڑی تھیں اور توشہ قلیل تھا (یعنی عرب کی سادگی اور دنیا سے آزادگی تھی) اور میں نے اور میری بہن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے اور فلانے فلانے شخصوں نے عمرہ کیا تھا، پھر جب ہم نے بیت اللہ کو چھوا (یعنی طواف اور سعی پوری کی) تو حلال ہو گئی، پھر تیسرے پہر کو حج کا احرام باندھا اور ہارون نے اپنی روایت میں کہا کہ روایت کی سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے مولیٰ نے اور ان کا نام عبداللہ نہیں لیا۔
|