سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
كتاب الطب
کتاب: طب کے متعلق احکام و مسائل
Chapters on Medicine
42. بَابُ: مَنْ كَانَ يُعْجِبُهُ الْفَأْلُ وَيَكْرَهُ الطِّيَرَةَ
باب: نیک فال لینا اچھا ہے اور بدفالی مکروہ۔
Chapter: Whoever likes good signs and dislikes omens
حدیث نمبر: 3536
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير , حدثنا عبدة بن سليمان , عن محمد بن عمرو , عن ابي سلمة , عن ابي هريرة ، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم:" يعجبه الفال الحسن , ويكره الطيرة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُعْجِبُهُ الْفَأْلُ الْحَسَنُ , وَيَكْرَهُ الطِّيَرَةَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیک فال (اچھے شگون) اچھی لگتی تھی، اور فال بد (برے شگون) کو ناپسند فرماتے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15069)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الطب 43 (5754)، 44 (5755)، صحیح مسلم/السلام 33 (2220) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3537
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة حدثنا يزيد بن هارون , انبانا شعبة , عن قتادة , عن انس , قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا عدوى ولا طيرة , واحب الفال الصالح".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ أَنَسٍ , قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ , وَأُحِبُّ الْفَأْلَ الصَّالِحَ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوت چھات اور بدشگونی کوئی چیز نہیں، اور میں فال نیک کو پسند کرتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطب 45 (5776)، صحیح مسلم/السلام 34 (2224)، (تحفة الأشراف: 1259)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطب 24 (3916)، سنن الترمذی/السیر 47 (1615)، مسند احمد (3/118، 154، 130، 178، 251، 173، 275) (صحیح)» ‏‏‏‏
حدیث نمبر: 3538
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا وكيع , عن سفيان , عن سلمة , عن عيسى بن عاصم , عن زر , عن عبد الله , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الطيرة شرك وما منا إلا , ولكن الله يذهبه بالتوكل".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ سَلَمَةَ , عَنْ عِيسَى بْنِ عَاصِمٍ , عَنْ زِرٍّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الطِّيَرَةُ شِرْكٌ وَمَا مِنَّا إِلَّا , وَلَكِنَّ اللَّهَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدشگونی شرک ہے ۱؎ اور ہم میں سے جسے بھی بدشگونی کا خیال آئے تو اللہ تعالیٰ پر توکل کی وجہ سے یہ خیال دور کر دے گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطب 24 (3910)، سنن الترمذی/السیر 47 (1614)، تحفة الأشراف (9207)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/389، 438، 440) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی اللہ کے اوپر بھروسہ کرنے سے یہ وہم جاتا رہے گا، انسان کو چاہئے کہ اگر ایسا وہم کبھی دل میں آئے، تو اس کو بیان نہ کرے، اور منھ سے نہ نکالے،اور اللہ پر بھروسہ کرے، جو وہ چاہے وہ ہو گا، امام بخاری نے کہا: سلیمان بن حرب کہتے تھے کہ میرے نزدیک یہ قول: «ومامنا۔۔۔» اخیر تک ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے، بلکہ اکثر حفاظ نے اس کو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا کلام کہا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3539
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا ابو الاحوص , عن سماك , عن عكرمة , عن ابن عباس , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا عدوى ولا طيرة , ولا هامة ولا صفر".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ , عَنْ سِمَاكٍ , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ , وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوت چھات ۱؎ اور بدشگونی کوئی چیز نہیں ہے، اسی طرح الو اور ماہ صفر کی نحوست کوئی چیز نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6126، ومصباح الزجاجة: 1234)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/269، 328) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: چھوت چھات یعنی بیماری خود سے متعدی نہیں ہے، بلکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر سے ہوتا ہے، البتہ بیماریوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اسباب کو اپنانا مستحب ہے، الو کو دن میں دکھائی نہیں دیتا ہے، تو وہ رات کو نکلتا ہے، اور اکثر ویرانوں میں رہتا ہے، عرب لوگ اس کو منحوس جانتے تھے، اور بعض یہ سمجھتے تھے کہ مقتول کی روح الو بن کر پکارتی پھرتی ہے، جب اس کا بدلہ لے لیا جاتا ہے تو وہ اڑ جاتا ہے، رسول اکرم ﷺ نے اس خیال کو باطل قرار دیا، اسی طرح صفر کے مہینے کو عوام اب تک منحوس جانتے ہیں، صفر کے مہینے کے پہلے تیرہ دن جس میں رسول اکرم ﷺ بیمار ہوئے تھے ان ایام کو تیرہ تیزی کہتے ہیں، ان میں عورتیں کوئی بڑا کام جیسے شادی بیاہ وغیرہ کرنے نہیں دیتیں،یہ بھی لغو ہے، صفر کا مہینہ اور مہینوں کی طرح ہے، کچھ فرق نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3540
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا وكيع , عن ابي جناب , عن ابيه , عن ابن عمر , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا عدوى , ولا طيرة , ولا هامة" , فقام إليه رجل، فقال: يا رسول الله , البعير يكون به الجرب , فتجرب به الإبل , قال:" ذلك القدر فمن اجرب الاول".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ أَبِي جَنَابٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا عَدْوَى , وَلَا طِيَرَةَ , وَلَا هَامَةَ" , فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , الْبَعِيرُ يَكُونُ بِهِ الْجَرَبُ , فَتَجْرَبُ بِهِ الْإِبِلُ , قَالَ:" ذَلِكَ الْقَدَرُ فَمَنْ أَجْرَبَ الْأَوَّلَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوت چھات، بدشگونی اور الو دیکھنے کی کوئی حقیقت نہیں، ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب اٹھ کر بولا: اللہ کے رسول! ایک اونٹ کو جب کھجلی ہوتی ہے تو دوسرے اونٹ کو بھی اس کی وجہ سے کھجلی ہو جاتی ہے ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی تو تقدیر ہے، آخر پہلے اونٹ کو کس نے کھجلی والا بنایا ۲؎۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: (86)، (تحفة الأشراف: 8580، ومصباح الزجاجة: 1235) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: مطلب یہ کہ امراض متعدی بھی ہوتے ہیں۔
۲؎: اور جو ڈاکٹر یا حکیم ہمارے زمانے میں بعض بیماری میں عدوی بتلاتے ہیں، ان سے جب یہ اعتراض کرو کہ بھلا اگر عدوی صحیح ہوتا تو جس گھر میں ایک شخص کو ہیضہ ہو تو چاہیے کہ اس گھر کے بلکہ اس محلہ کے سب لوگ مر جائیں، تو اس کا کوئی معقول جواب نہیں دیتے، بلکہ یوں کہتے ہیں کہ بعض مزاجوں میں اس بیماری کے قبول کرنے کا مادہ ہوتا ہے تو ان کو بیماری لگ جاتی ہے، بعض مزاجوں میں یہ مادہ نہیں ہوتا تو ان کو باوجود قرب کے بیماری نہیں لگتی، ہم یوں کہتے ہیں کہ مادے کا مزاج میں پیدا کرنے والا کون ہے؟ اللہ تعالیٰ، تو پھر سب امور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوئے اسی کی مرضی اور تقدیر سے پھر عدوی کا قائل ہونا کیا ضروری ہے؟۔

قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله ذلك القدر
حدیث نمبر: 3541
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا علي بن مسهر , عن محمد بن عمرو , عن ابي سلمة a> , عن ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يورد الممرض على المصح".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ a> , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يُورِدُ الْمُمْرِضُ عَلَى الْمُصِحِّ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیمار اونٹ کو تندرست اونٹ کے پاس نہ جانے دیا جائے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15075)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/السلام 33 (2221، 2223)، سنن ابی داود/الطب 24 (3911)، مسند احمد (2/434) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیماری متعدی ہوتی ہے، اس لیے نبی اکرم ﷺ نے تندرست اور غیر مریض جانوروں کو مریض اونٹوں کے قریب لے جانے سے منع کیا، بلکہ آپ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ اکثر ایسا سابقہ تقدیر اور اللہ کی مرضی کے مطابق ہو جاتا ہے، تو جانورں کا مالک تعدی کے ناحیہ سے فتنہ اور شک میں مبتلا ہو سکتا ہے، اس وجہ سے آپ نے دور رکھنے کا حکم دیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.