الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْحَجِّ حج کے احکام و مسائل 42. باب جَوَازِ الطَّوَافِ عَلَى بَعِيرٍ وَغَيْرِهِ وَاسْتِلاَمِ الْحَجَرِ بِمِحْجَنٍ وَنَحْوِهِ لِلرَّاكِبِ: باب: اونٹ وغیرہ پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف اور چھڑی وغیرہ سے حجر اسود کا استلام کر نے کا جواز۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع میں اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا اور حجر اسود کو اپنی چھڑی سے چھو لیتے تھے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ طواف کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا حجتہ الوداع میں اپنی اونٹنی پر اور حجر کو اپنی چھڑی سے چھوتے تھے تاکہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونچے ہو جائیں اور آپ سے مسائل پوچھیں اس لئے کہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت گھیرا تھا۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے وہی مضمون مروی ہے اور ابن خشرم کی روایت میں «وَلِيَسْأَلُوهُ» نہیں ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ طواف کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع میں کعبہ کے گرد اپنی اونٹنی پر اور رکن کو چھوتے جاتے اور اس لیے سوار ہوئے کہ لوگوں کو اپنے پاس سے ہٹانا نہ پڑے۔
سیدنا ابوالطفیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ طواف کرتے تھے اور رکن اپنی چھڑی سے چھوتے اور چھڑی کو چوم لیتے۔
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے شکایت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ میں بیمار ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب لوگوں کے پیچھے سوار ہو کر طواف کر لو۔“ سو میں نے کہا کہ میں طواف کرتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ طور پڑھ رہے تھے نماز میں بیت اللہ کے بازو پر۔
|