الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كتاب الأدب کتاب: اسلامی آداب و اخلاق 53. بَابُ: فَضْلِ الذِّكْرِ باب: ذکر الٰہی کی فضیلت۔
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے اعمال میں سب سے بہتر عمل ہو، اور تمہارے مالک کو سب سے زیادہ محبوب ہو، اور تمہارے درجات کو بلند کرتا ہو، اور تمہارے لیے سونا چاندی خرچ کرنے اور دشمن سے ایسی جنگ کرنے سے کہ تم ان کی گردنیں مارو، اور وہ تمہاری گردنیں ماریں بہتر ہو؟“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کون سا عمل ہے؟ آپ نے فرمایا: ”وہ اللہ کا ذکر ہے“۔ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دلانے والا انسان کا کوئی عمل ذکر الٰہی سے بڑھ کر نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الدعوات 6 (3377)، (تحفة الأشراف: 10950)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/القرآن 7 (24)، مسند احمد (5/195، 6/447) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ اور ابوسعید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ دونوں گواہی دیتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو لوگ مجلس میں بیٹھ کر ذکر الٰہی کرتے ہیں، فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں، اور (اللہ کی) رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے، اور سکینت ان پر نازل ہونے لگتی ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے مقرب فرشتوں سے ان کا ذکر کرتا ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الذکروالدعاء 11 (2700)، سنن الترمذی/الدعوات 7 (3378)، (تحفة الأشراف: 3964، 12194)، وقد أخرجہ: مسند احمد3/33، 49، 92، 94) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ایک حدیث میں ہے کہ لوگوں نے زور سے اللہ کی یاد شروع کی یعنی بہت چلا کر تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”تم اس کو نہیں پکارتے جو بہرہ ہے، یا غائب ہے، اپنے اوپر آسانی کرو، دوسری روایت میں ہے کہ وہ تم سے زیادہ قریب ہے تمہارے پالان کی آگے کی لکڑی یا تمہارے اونٹ کی گردن سے بھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر جگہ اور ہر چیز کو سنتا، اور دیکھتا ہے، پس چلانے کی ضرورت نہیں اگرچہ اس کی ذات مقدس عرش معلی پر ہے مگر اس کا سمع اور بصر ہر جگہ ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں، جب وہ میرا ذکر کرتا ہے، اور اس کے ہونٹ میرے ذکر کی وجہ سے حرکت میں ہوتے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15512، ومصباح الزجاجة: 1323)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التوحید 43 تعلیقا، مسند احمد (2/540) (صحیح)» (سند میں محمد بن مصعب قرقسانی صدوق اور کثیر الغلط راوی ہیں، ابن حبان کے یہاں ایوب بن سوید نے ان کی متابعت کی ہے، بوصیری نے سند کو حسن کہا ہے، اور البانی نے شاہد کی بناء پر صحیح کہا ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اسلام کے اصول و قواعد مجھ پر بہت ہو گئے ہیں ۱؎، لہٰذا آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتا دیجئیے جس پر میں مضبوطی سے جم جاؤں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری زبان ہمیشہ ذکر الٰہی سے تر رہنی چاہیئے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الدعوات 4 (3375)، (تحفة الأشراف: 5196)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/188، 190) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اسلام میں نیک اعمال کے طریقے بہت زیادہ ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|