كِتَاب الْحَجِّ حج کے احکام و مسائل The Book of Pilgrimage 85. باب فَضْلِ الْمَدِينَةِ وَدُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا بِالْبَرَكَةِ وَبَيَانِ تَحْرِيمِهَا وَتَحْرِيمِ صَيْدِهَا وَشَجَرِهَا وَبَيَانِ حُدُودِ حَرَمِهَا: باب: مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کی دعا اور اس کی حرمت اور اس کے شکار، اور درخت کاٹنے کی حرمت، اور اس کے حدود حرم کا بیان۔ Chapter: The virtue of Al-Madinah and the Prophet's Prayer for it to be blessed. Its sanctity and the sanctity of its game and trees. The Boundaries of its sanctuary عبدالعزیز یعنی محمد دراوردی کے بیٹے نے عمرو بن یحییٰ مازنی سے حدیث بیان کی، انہوں نے عباد بن تمیم سے، انہوں نے اپنے چچا عبداللہ بن زید عاصم رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا اور اس کے رہنے والوں کے لیے دعا کی اور میں نے مدینہ کو حرم قرار دیا جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں نے اس کے صاع اور مد میں سے دگنی (برکت) کی دعا کی جتنی ابراہیم علیہ السلام نے اہل مکہ کے لیے کی تھی۔“ حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کی حرمت کی تشہیر کی اور اس کے باشندوں کے حق میں دعا فرمائی، اور میں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں، جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا، اور میں اس کے صاع اور مد کے بارے میں اس سے دگنی دعا کرتا ہوں، جتنی ابراہیم علیہ السلام نے اہل مکہ کے لیے کی تھی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبدالعزیز یعنی ابن مختار، سلیمان بن بلال اور وہیب (بن خالد باہلی) سب نے عمرو بن یحییٰ مازنی سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی، وہیب کی حدیث دراوردی کی حدیث کی طرح ہے: ”اس سے دگنی (برکت) کی جتنی برکت کی ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی۔“ جبکہ سلیمان بن بلال اور عبدالعزیز بن مختار دونوں کی روایت میں ہے: ”جتنی (برکت کی) ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی۔“ امام صاحب مذکورہ بالا روایت کئی دوسرے اساتذہ سے کرتے ہیں، وہیب کی روایت میں دراوردی کی روایت کی طرح، ابراہیم علیہ السلام سے دگنی دعا کا ذکر ہے، لیکن سلیمان بن بلال اور عبدالعزیز بن مختار کی روایت میں ہے، جیسی ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبداللہ بن عمرو بن عثمان نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم ٹھہرایا اور میں اس (شہر) کی دونوں سیاہ پتھر زمینوں کے درمیان میں واقع حصے کو حرم قرار دیتا ہوں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد مدینہ تھا۔ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(حضرت ابراہیم علیہ السلام) نے مکہ کو حرم ٹھہرایا اور میں مدینہ کے دونوں سیاہ پتھریلی زمینوں کے درمیان والے علاقے کو حرم قرار دیتا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

وحدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب ، حدثنا سليمان بن بلال ، عن عتبة بن مسلم ، عن نافع بن جبير : ان مروان بن الحكم خطب الناس، فذكر مكة، واهلها وحرمتها، ولم يذكر المدينة، واهلها وحرمتها، فناداه رافع بن خديج ، فقال: " ما لي اسمعك ذكرت مكة، واهلها وحرمتها، ولم تذكر المدينة، واهلها وحرمتها، وقد حرم رسول الله صلى الله عليه وسلم ما بين لابتيها "، وذلك عندنا في اديم خولاني إن شئت اقراتكه، قال: فسكت مروان، ثم قال: قد سمعت بعض ذلك.وحدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعَنْبٍ ، حدثنا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ : أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ خَطَبَ النَّاسَ، فَذَكَرَ مَكَّةَ، وَأَهْلَهَا وَحُرْمَتَهَا، وَلَمْ يَذْكُرِ الْمَدِينَةَ، وَأَهْلَهَا وَحُرْمَتَهَا، فَنَادَاهُ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ ، فقَالَ: " مَا لِي أَسْمَعُكَ ذَكَرْتَ مَكَّةَ، وَأَهْلَهَا وَحُرْمَتَهَا، وَلَمْ تَذْكُرِ الْمَدِينَةَ، وَأَهْلَهَا وَحُرْمَتَهَا، وَقَدْ حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا "، وَذَلِكَ عَنْدَنَا فِي أَدِيمٍ خَوْلَانِيٍّ إِنْ شِئْتَ أَقْرَأْتُكَهُ، قَالَ: فَسَكَتَ مَرْوَانُ، ثُمَّ قَالَ: قَدْ سَمِعْتُ بَعْضَ ذَلِكَ. نافع بن جبیر سے روایت ہے کہ مروان بن حکم نے لوگوں کو خطاب کیا، اس نے مکہ کے باشندوں اور اس کی حرمت کا تذکرہ کیا اور مدینہ اس کے باشندوں اور اس کی حرمت کا تذکرہ نہ کیا، تو رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے اس کو مخاطب کیا اور کہا: کیا ہوا ہے؟ میں سن رہا ہوں کہ تم نے مکہ اس کے باشندوں اور اس کی حرمت کا تذکرہ کیا لیکن مدینہ اس کے باشندوں اور اس کی حرمت کا تذکرہ نہیں کیا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دونوں سیاہ پتھروں والی زمینوں کے درمیان میں واقع علاقے کو حرم قرار دیا ہے اور (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا) وہ فرمان خولانی چمڑے میں ہمارے پاس محفوظ ہے۔ اگر تم چاہو تو اسے میں تمہیں پڑھا دوں۔ اس پر مروان خاموش ہوا، پھر کہنے لگا: اس کا کچھ حصہ میں نے بھی سنا ہے۔ نافع بن جبیر بیان کرتے ہیں، کہ مروان بن حکم نے لوگوں کو خطاب کیا اور اس میں مکہ، اہل مکہ اور وہاں کے ادب و احترام کا ذکر کیا، تو اسے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آواز دی، کیا وجہ ہے، میں تم سے مکہ، اہل مکہ اور اس کی حرمت کا تذکرہ سن رہا ہوں، لیکن تم نے مدینہ، اہل مدینہ اور اس کی حرمت کا ذکر نہیں کیا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دونوں سنگریزوں کے درمیان کے علاقہ کو حرم قرار دیا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان، ہمارے پاس خولانی چمڑے پر لکھا ہوا موجود ہے، اگر چاہو تو میں تمہیں اسے پڑھا سکتا ہوں، اس پر مروان خاموش ہو گیا، پھر کہا، اس کا کچھ حصہ میں نے بھی سنا ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حضرت جابر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں مدینہ کو جو ان دو سیاہ پتھریلی زمینوں کے درمیان ہے حرم قرار دیتا ہوں، نہ اس کے کانٹے دار درخت کاٹے جائیں اور نہ اس کے شکار کے جانوروں کا شکار کیا جائے۔“ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کے حرم ہونے کا اعلان کیا، اور میں مدینہ کے دونوں پتھریلے علاقوں کے درمیان کے حصہ کے حرم ہونے کا اعلان کرتا ہوں، اس کے کانٹے دار درخت نہیں کاٹے جائیں گے، اور نہ اس کا شکار کیا جائے گا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الله بن نمير . ح وحدثنا ابن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا عثمان بن حكيم ، حدثني عامر بن سعد ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني احرم ما بين لابتي المدينة ان يقطع عضاهها، او يقتل صيدها "، وقال: " المدينة خير لهم لو كانوا يعلمون، لا يدعها احد رغبة عنها، إلا ابدل الله فيها من هو خير منه، ولا يثبت احد على لاوائها وجهدها، إلا كنت له شفيعا، او شهيدا يوم القيامة "،حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وحدثنا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حدثنا أَبِي ، حدثنا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيِ الْمَدِينَةِ أَنْ يُقْطَعَ عِضَاهُهَا، أَوْ يُقْتَلَ صَيْدُهَا "، وَقَالَ: " الْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ، لَا يَدَعُهَا أَحَدٌ رَغْبَةً عَنْهَا، إِلَّا أَبْدَلَ اللَّهُ فِيهَا مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ، وَلَا يَثْبُتُ أَحَدٌ عَلَى لَأْوَائِهَا وَجَهْدِهَا، إِلَّا كُنْتُ لَهُ شَفِيعًا، أَوْ شَهِيدًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ "، عبداللہ بن نمیر نے کہا: ہمیں عثمان بن حکیم نے حدیث بیان کی (کہا:) مجھ سے عامر بن سعد نے اپنے والد (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) سے حدیث بیان کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں مدینہ کی دو سیاہ پتھریلی زمینوں کے درمیانی حصے کو حرام ٹھہراتا ہوں کہ اس کے کانٹے دار درخت کاٹے جائیں یا اس میں شکار کو مارا جائے۔“ اور آپ نے فرمایا: ”اگر یہ لوگ جان لیں تو مدینہ ان کے لیے سب سے بہتر جگہ ہے۔ کوئی بھی آدمی اس سے بے رغبتی کرتے ہوئے اسے چھوڑ کر نہیں جاتا مگر اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ایسا شخص اس میں لے آتا ہے جو اس (جانے والے) سے بہتر ہوتا ہے اور کوئی شخص اس کی تنگدستی اور مشقت پر ثابت قدم نہیں رہتا مگر میں قیامت کے دن اس کے لیے سفارشی یا گواہ ہوں گا۔“ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں حرم قرار دیتا ہوں، مدینہ کی دونوں حدوں کے درمیانی علاقہ کو، اس کے خار دار درخت نہ کاٹے جائیں اور اس کے شکار کو قتل نہ کیا جائے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ”مدینہ لوگوں کے لیے بہتر ہے، اگر وہ (اس کی خیر و برکت کو) جانتے ہوں، کوئی انسان اس کو بے نیازی اختیار کرتے ہوئے نہیں چھوڑے گا، مگر اللہ تعالیٰ اس کی جگہ، اس سے بہتر بندے کو بھیج دے گا، (جانے والا ہی خیر و برکت سے محروم ہو گا، اس کے جانے سے مدینہ میں کوئی کمی نہیں آئے گی) اور جو کوئی بندہ اس کی تنگیوں ترشیوں اور مشقتوں پر صبر کر کے وہاں پڑا رہے گا، تو میں قیامت کے دن اس کی سفارش کروں گا، اور اس کے حق میں شہادت دوں گا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مروان بن معاویہ نے ہمیں حدیث بیان کی (کہا:) ہمیں عثمان بن حکیم انصاری نے حدیث بیان کی، (کہا:) مجھے عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اپنے والد سے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ابن نمیر کی حدیث کی طرح بیان کیا اور حدیث میں ان الفاظ کا اضافہ کیا:) ”اور کوئی شخص نہیں جو اہل مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گا مگر اللہ تعالیٰ اسے آگ میں سیسے کے پگھلنے یا پانی میں نمک کے پگھلنے کی طرح پگھلا دے گا۔“ ایک اور استاد سے امام صاحب مذکورہ بالا روایت نقل کرتے ہیں، اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بھی اہل مدینہ کو تکلیف پہنچانے کا ارادہ کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کو آگ میں اس طرح پگھلائے گا، جس طرح سیسہ پگھلتا ہے، یا جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

اسماعیل بن محمد نے عامر بن سعد سے روایت کی کہ حضرت سعد (بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) (مدینہ کے قریب) عقیق میں اپنے محل کی طرف روانہ ہوئے، انہوں نے ایک غلام کو دیکھا وہ درخت کاٹ رہا تھا یا اس کے پتے چھاڑ رہا تھا، انہوں نے اس سے (اس کا لباس اور سازو سامان) سلب کر لیا۔ جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ (مدینہ) لوٹے تو غلام کے مالک ان کے پاس حاضر ہوئے اور ان سے گفتگو کی کہ انہوں نے جو ان کے غلام سے (سامان لیا)، وہ واپس کر دیں۔ انہوں نے کہا: اللہ کی پناہ کہ میں کوئی ایسی چیز واپس کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بطور غنیمت دی ہے اور انہوں نے وہ (سامان) انہیں واپس کرنے سے انکار کر دیا۔ عامر بن سعد بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سوار ہو کر اپنے گھر جو عقیق میں واقع تھا کی طرف چلے تو راستہ میں ایک غلام کو درخت کاٹتے یا اس کے پتے جھاڑتے پایا، تو اس کا سامان چھین لیا، تو جب حضرت سعد واپس آئے، ان کے پاس غلام کے مالک آئے اور ان سے کہا، (گفتگو کی) کہ ان کے غلام کو یا ان کو وہ کچھ واپس کر دیں، جو ان کے غلام سے لیا ہے، تو انہوں نے کہا، اللہ کی پناہ کہ میں وہ چیز واپس کر دوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور انعام عنایت فرمائی ہے، اور سامان واپس کرنے سے انکار کر دیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدثنا يحيى بن ايوب ، وقتيبة بن سعيد ، وابن حجر ، جميعا عن إسماعيل ، قال ابن ايوب، حدثنا إسماعيل بن جعفر، اخبرني عمرو بن ابي عمرو مولى المطلب بن عبد الله بن حنطب، انه سمع انس بن مالك ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لابي طلحة: " التمس لي غلاما من غلمانكم يخدمني "، فخرج بي ابو طلحة يردفني وراءه، فكنت اخدم رسول الله صلى الله عليه وسلم كلما نزل، وقال في الحديث: ثم اقبل حتى إذا بدا له احد، قال: " هذا جبل يحبنا ونحبه، فلما اشرف على المدينة، قال: اللهم إني احرم ما بين جبليها مثل ما حرم به إبراهيم مكة، اللهم بارك لهم في مدهم وصاعهم "،حدثنا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، جَمِيعًا عَنْ إِسْمَاعِيل ، قَالَ ابْنُ أَيُّوبَ، حدثنا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي عَمْرٍو مَوْلَى الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْطَبٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي طَلْحَةَ: " الْتَمِسْ لِي غُلَامًا مِنْ غِلْمَانِكُمْ يَخْدُمُنِي "، فَخَرَجَ بِي أَبُو طَلْحَةَ يُرْدِفُنِي وَرَاءَهُ، فَكُنْتُ أَخْدُمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّمَا نَزَلَ، وقَالَ فِي الْحَدِيثِ: ثُمَّ أَقْبَلَ حَتَّى إِذَا بَدَا لَهُ أُحُدٌ، قَالَ: " هَذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ، فَلَمَّا أَشْرَفَ عَلَى الْمَدِينَةِ، قَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ جَبَلَيْهَا مِثْلَ مَا حَرَّمَ بِهِ إِبْرَاهِيمُ مَكَّةَ، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِي مُدِّهِمْ وَصَاعِهِمْ "، اسماعیل بن جعفر نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا:) مجھے مطلب بن عبداللہ بن حنطب کے مولیٰ عمرو بن ابی عمرو نے خبر دی کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے کہا: ”میرے لیے اپنے (انصار کے) لڑکوں میں سے ایک لڑکا ڈھونڈو جو میری خدمت کیا کرے۔“ ابوطلحہ مجھے سواری پر پیچھے بٹھائے ہوئے لے کر نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں بھی قیام فرماتے، میں آپ کی خدمت کرتا۔ اور (اس) حدیث میں کہا: پھر آپ (لوٹ کر) آئے حتیٰ کہ جب کوہ احد آپ کے سامنے نمایاں ہوا تو آپ نے فرمایا: ”یہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔“ پھر جب بلندی سے مدینہ پر نگاہ ڈالی تو فرمایا: ”اے اللہ! میں اس دونوں پہاڑوں کے درمیان کے علاقے کو حرم قرار دیتا ہوں جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرام قرار دیا تھا۔ اے اللہ! ان (اہل مدینہ) کے لیے ان کے مد اور صاع میں برکت عطا فرما۔“ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: ”انصاری لڑکوں سے کوئی لڑکا تلاش کرو، وہ میری خدمت کرے۔“ تو ابو طلحہ مجھے لے کر اپنے پیچھے سوار کر کے نکلے، جب بھی کسی منزل پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اترتے، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا اور حدیث میں یہ بھی بیان کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینہ کی طرف آئے، حتی کہ جب اُحد آپ پر نمایاں ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں،“ تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پر جھانکے (اس کے قریب پہنچے) فرمایا: ”اے اللہ میں ان دونوں پہاڑوں کی درمیانی جگہ کو محترم قرار دیتا ہوں، جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا، اے اللہ! ان کے مد اور ان کے صاع میں برکت فرما۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
یعقوب بن عبدالرحمٰن القاری نے ہمیں عمرو بن ابی عمرو سے حدیث بیان کی، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کی۔ مگر انہوں نے کہا: ”میں اس کی دونوں کالے سنگریزوں والی زمینوں کے درمیانی حصے کو حرم قرار دیتا ہوں۔“ امام صاحب یہی روایت ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں، اس میں بَيْنَ جَبَلَيْهَا
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثناه حامد بن عمر ، حدثنا عبد الواحد ، حدثنا عاصم ، قال: قلت لانس بن مالك : " احرم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة؟ قال: " نعم، ما بين كذا إلى كذا فمن احدث فيها حدثا، قال: ثم قال لي: هذه شديدة من احدث فيها حدثا: فعليه لعنة الله، والملائكة، والناس اجمعين، لا يقبل الله منه يوم القيامة صرفا، ولا عدلا "، قال: فقال ابن انس: او آوى محدثا.وحدثناه حَامِدُ بْنُ عُمَرَ ، حدثنا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، حدثنا عَاصِمٌ ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ : " أَحَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ؟ قَالَ: " نَعَمْ، مَا بَيْنَ كَذَا إِلَى كَذَا فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا، قَالَ: ثُمَّ قَالَ لِي: هَذِهِ شَدِيدَةٌ مَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا: فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا، وَلَا عَدْلًا "، قَالَ: فقَالَ ابْنُ أَنَسٍ: أَوْ آوَى مُحْدِثًا. عاصم نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کو حرم قرار دیا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں، فلاں مقام سے فلاں مقام تک (کا علاقہ)، جس نے اس میں کوئی بدعت نکالی، پھر انہوں نے مجھ سے کہا: یہ سخت وعید ہے: ”جس نے اس میں بدعت کا ارتکاب کیا اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہو گی، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے نہ کوئی عذر و حیلہ قبول فرمائے گا نہ کوئی بدلہ۔“ کہا: ابن انس نے کہا: یا (جس نے) کسی بدعت کا ارتکاب کرنے والے کو پناہ دی۔ عاصم بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے پوچھا، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کو حرم قرار دیا ہے؟ انہوں نے کہا، ہاں۔ فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک (عیر سے ثور تک) تو جس نے اس میں کوئی جرم کیا، پھر مجھ سے کہا، یہ بڑی شدید وعید ہے کہ "جس نے اس میں کوئی جرم کیا، تو اس پر لعنت ہے، اللہ کی، فرشتوں کی، اور تمام لوگوں کی، اللہ اس سے قیامت کے دن کوئی توبہ و فدیہ یا فرض اور نفل قبول نہیں کرے گا۔" ابن انس نے یہ اضافہ کیا اور جس نے مجرم کو پناہ دی، (اس کے لیے بھی یہی وعید ہے۔)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني زهير بن حرب ، حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا عاصم الاحول ، قال: سالت انسا : احرم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة؟ قال: " نعم، هي حرام، لا يختلى خلاها فمن فعل ذلك، فعليه لعنة الله، والملائكة، والناس اجمعين ".حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسًا : أَحَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ؟ قَالَ: " نَعَمْ، هِيَ حَرَامٌ، لَا يُخْتَلَى خَلَاهَا فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ". ہمیں عاصم احول نے خبر دی، کہا: میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کو حرم قرار دیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، یہ حرم ہے، اس کی گھاس نہ کاٹی جائے، جس نے ایسا کیا اس پر اللہ کی، فرشتوں کی، اور سب لوگوں کی لعنت ہو گی۔“ عاصم بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کو حرم قرار دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا، ہاں، وہ حرم ہے، اس کی گھاس نہیں کاٹی جائے گی، جس نے یہ حرکت کی، اس پر اللہ، فرشتوں، اور سب لوگوں کی طرف سے لعنت ہو۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ان (اہل مدینہ) کے لیے ان کے ناپنے کے پیمانے میں برکت عطا فرما، ان کے صاع میں برکت عطا فرما۔ اور ان کے مد میں برکت عطا فرما۔“ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ان کے (اہل مدینہ کے) پیمانہ میں برکت فرما، ان کے صاع میں برکت فرما اور ان کے مد میں برکت فرما۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
زہری نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! مدینہ میں اس سے دگنی برکت رکھ جتنی مکہ میں ہے۔“ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! مدینہ میں اس سے دگنی برکت فرما، جتنی مکہ میں برکت رکھی ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب ، وابو كريب ، جميعا عن ابي معاوية ، قال ابو كريب، حدثنا ابو معاوية، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم التيمي ، عن ابيه ، قال: خطبنا علي بن ابي طالب ، فقال: من زعم ان عندنا شيئا نقرؤه إلا كتاب الله، وهذه الصحيفة، قال: وصحيفة معلقة في قراب سيفه، فقد كذب فيها اسنان الإبل، واشياء من الجراحات، وفيها قال النبي صلى الله عليه وسلم: " المدينة حرم ما بين عير إلى ثور، فمن احدث فيها حدثا، او آوى محدثا، فعليه لعنة الله، والملائكة، والناس اجمعين، لا يقبل الله منه يوم القيامة صرفا، ولا عدلا، وذمة المسلمين واحدة يسعى بها ادناهم، ومن ادعى إلى غير ابيه، او انتمى إلى غير مواليه، فعليه لعنة الله، والملائكة، والناس اجمعين، لا يقبل الله منه يوم القيامة صرفا، ولا عدلا "، وانتهى حديث ابي بكر، وزهير، عند قوله: يسعى بها ادناهم، ولم يذكرا ما بعده، وليس في حديثهما: معلقة في قراب سيفه،وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، جَمِيعًا عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ، قَالَ أَبُو كُرَيْبٍ، حدثنا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حدثنا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: خَطَبَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ، فقَالَ: مَنْ زَعَمَ أَنَّ عَنْدَنَا شَيْئًا نَقْرَؤُهُ إِلَّا كِتَابَ اللَّهِ، وَهَذِهِ الصَّحِيفَةَ، قَالَ: وَصَحِيفَةٌ مُعَلَّقَةٌ فِي قِرَابِ سَيْفِهِ، فَقَدْ كَذَبَ فِيهَا أَسْنَانُ الْإِبِلِ، وَأَشْيَاءُ مِنَ الْجِرَاحَاتِ، وَفِيهَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمَدِينَةُ حَرَمٌ مَا بَيْنَ عَيْرٍ إِلَى ثَوْرٍ، فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا، أَوْ آوَى مُحْدِثًا، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا، وَلَا عَدْلًا، وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ، وَمَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، أَوِ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا، وَلَا عَدْلًا "، وَانْتَهَى حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ، وَزُهَيْرٍ، عَنْدَ قَوْلِهِ: يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ، وَلَمْ يَذْكُرَا مَا بَعْدَهُ، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِهِمَا: مُعَلَّقَةٌ فِي قِرَابِ سَيْفِهِ، ہمیں ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب اور ابوکریب سب نے ابومعاویہ سے حدیث بیان کی (کہا:) ہمیں اعمش نے ابراہیم تیمی سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہمیں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور کہا: جس نے یہ گمان کیا کہ ہمارے پاس کتاب اللہ اور اس صحیفہ۔ (راوی نے) کہا: اور وہ صحیفہ ان کی تلوار کے تھیلے کے ساتھ لٹکا ہوا تھا۔ کے علاوہ کچھ ہے جسے ہم پڑھتے ہیں تو اس نے جھوٹ بولا، اس میں (دیت کے) کچھ احکام ہیں۔ اور اس میں یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عیر سے ثور تک کے درمیان (سارا) مدینہ حرم ہے: جس نے اس میں کسی بدعت کا ارتکاب کیا یا بدعت کے کسی مرتکب کو پناہ دی تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہو گی۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے کوئی عذر قبول کرے گا نہ کوئی بدلہ اور سب مسلمانوں کی ذمہ داری (امان) ایک (جیسی) ہے، ان کا ادنیٰ شخص بھی ایسا کر سکتا ہے (امان دے سکتا ہے)، جس شخص نے اپنے والد کے سوا کسی اور کا (بیٹا) ہونے کا دعویٰ کیا یا جس (غلام) نے اپنے موالی (آزاد کرنے والوں) کے سوا کسی اور کی طرف نسبت اختیار کی، اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے کوئی عذر قبول فرمائے گا نہ بدلہ۔“ ابوبکر اور زہیر کی حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ”ان کا ادنیٰ شخص بھی ایسا کر سکتا ہے“ پر ختم ہو گئی اور ان دونوں نے وہ حصہ ذکر نہیں کیا جو اس کے بعد ہے اور نہ ان کی حدیث میں یہ الفاظ ہیں: ”وہ ان کی تلوار کے تھیلے کے ساتھ لٹکا ہوا تھا۔“ ابراہیم تیمی اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں خطاب فرمایا اور کہا، جس کا یہ گمان ہے کہ ہمارے پاس پڑھنے کے لیے اللہ کی کتاب اور اس صحیفہ (ان کی تلوار کی نیام کے ساتھ ایک صحیفہ لٹکا ہوا تھا) کے سوا کچھ ہے وہ جھوٹ بولتا ہے، اس صحیفہ میں اونٹوں کی عمروں اور کچھ زخموں (کی دیت) کا ذکر ہے، اور اس میں یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ، عَیر سے لے کر ثَور تک حرم ہے، تو جس نے اس میں کسی قسم کا جرم کیا یا مجرم کو تحفظ و پناہ دی، اس پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن، اس کا کوئی فرض قبول کرے گا، نہ نفل، مسلمانوں کی امان و پناہ یکساں ہے، ان کا کم حیثیت فرد بھی یہ کام کر سکتا ہے، اور جس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی کی طرف نسبت کی یا جس نے اپنے آزاد کرنے والوں کے سوا کی طرف نسبت کی، اس پر اللہ، فرشتوں، اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، اللہ قیامت کے دن اس کا کوئی فرض یا نفل قبول نہیں فرمائے گا۔“ ابوبکر اور زہیر کی حدیث، ”ان کا ادنیٰ فرد پناہ دے سکتا ہے“ پر ختم ہو گئی، ان کی روایت میں بعد والا حصہ نہیں ہے، اس طرح، ان کی روایت میں صحیفہ کے تلوار کی نیام کے ساتھ لٹکنے کا ذکر نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني علي بن حجر السعدي ، اخبرنا علي بن مسهر . ح وحدثني ابو سعيد الاشج ، حدثنا وكيع ، جميعا عن الاعمش ، بهذا الإسناد، نحو حديث ابي كريب، عن ابي معاوية، إلى آخره، وزاد فى الحديث «فمن اخفر مسلما فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين لا يقبل منه يوم القيامة صرف ولا عدل» . وليس فى حديثهما «من ادعى إلى غير ابيه» . وليس فى رواية وكيع ذكر يوم القيامة.وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، أَخْبَرَنا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، حدثنا وَكِيعٌ ، جَمِيعًا عَنِ الْأَعْمَشِ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي كُرَيْبٍ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، إِلَى آخِرِهِ، وَزَادَ فِى الْحَدِيثِ «فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلاَئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لاَ يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفٌ وَلاَ عَدْلٌ» . وَلَيْسَ فِى حَدِيثِهِمَا «مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ» . وَلَيْسَ فِى رِوَايَةِ وَكِيعٍ ذِكْرُ يَوْمِ الْقِيَامَةِ. علی بن مسہر اور وکیع دونوں نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح حدیث بیان کی جس طرح آخر تک ابومعاویہ سے ابوکریب کی روایت کردہ حدیث ہے اور (اس میں) یہ اضافہ کیا: ”لہٰذا جس نے کسی مسلمان کی امان توڑی اس پر اللہ تعالیٰ کی (تمام) فرشتوں کی اور سب انسانوں کی لعنت ہے، قیامت کے دن اس سے کوئی عذر قبول کیا جائے گا نہ بدلہ۔“ ان دونوں کی حدیث میں یہ الفاظ نہیں ہیں: ”جس نے اپنے والد کے سوا کسی اور کی نسبت اختیار کی“ اور نہ وکیع کی روایت میں قیامت کے دن کا تذکرہ ہے۔ امام صاحب اعمش ہی کی سند سے دو اور اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں، اور اس میں یہ اضافہ ہے، جس نے کسی مسلمان کی پناہ کو توڑا، اس پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو، قیامت کے دن اس کے فرض اور نفل قبول نہیں کیے جائیں گے، ان دونوں کی حدیث میں، جس نے اپنے باپ کے غیر کی طرف نسبت کی کا ذکر نہیں ہے، اور حکیم کی روایت میں قیامت کے دن کا ذکر نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
سفیان نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ ابن مسہر اور وکیع کی حدیث کی طرح بیان کی، مگر اس میں ”جس نے اپنے موالی (آزاد کرنے والوں) کے علاوہ کسی کی طرف نسبت اختیار کی“ اور اس پر لعنت کا ذکر نہیں ہے۔ امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ سے ابن مسہر اور وکیع کی اعمش سے مذکورہ بالا سند والی حدیث کی طرح روایت بیان کرتے ہیں، لیکن اس میں، ”جس نے اپنے موالی کے غیر کی طرف نسبت کی،“ کا ذکر نہیں ہے، اور نہ ہی، اس پر لعنت کا ذکر ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
زائدہ نے سلیمان سے، انہوں نے ابوصالح سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ حرم ہے، جس نے اس میں کسی بدعت کا ارتکاب کیا یا کسی بدعت کے مرتکب کو پناہ دی، اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب انسانوں کی لعنت ہے۔ قیامت کے دن اس سے کوئی عذر قبول کیا جائے گا نہ کوئی بدلہ۔“ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ حرم ہے، اس لیے جس نے اس میں جرم کیا یا مجرم کو پناہ اور ٹھکانا دیا، اس پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو، قیامت کے دن اس کے نفل اور فرض قبول نہیں کیے جائیں گے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
سفیان نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند روایت کی، اور انہوں نے ”قیامت کے دن“ کے الفاظ نہیں کہے اور یہ اضافہ کیا: ”اور تمام مسلمانوں کا ذمہ ایک (جیسا) ہے، ان کا ادنیٰ آدمی بھی پناہ کی پیش کش کر سکتا ہے، جس نے کسی مسلمان کی امان توڑی، اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب انسانوں کی لعنت ہے۔ قیامت کے دن اس سے کوئی بدلہ قبول کیا جائے گا نہ کوئی عذر۔“ امام صاحب ایک اور استاد سے یہی روایت بیان کرتے ہیں، لیکن قیامت کے دن کا ذکر نہیں ہے، اور یہ اضافہ ہے، مسلمانوں کا عہد و پیمان برابر ہے، ان کا ادنیٰ فرد بھی یہ کام سر انجام دے سکتا ہے، تو جو شخص کسی مسلمان کی پناہ کو توڑے گا، اس پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو، قیامت کے دن اس کے نفل اور فرض قبول نہیں ہوں گے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ہمیں یحییٰ بن یحییٰ نے حدیث سنائی، کہا: میں نے امام مالک کے سامنے قراءت کی کہ ابن شہاب سے روایت ہے۔ انہوں نے سعید بن مسیب سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، وہ کہا کرتے تھے: اگر میں مدینہ میں ہرنیاں چرتی ہوئی دیکھوں، تو میں انہیں ہراساں نہیں کروں گا (کیونکہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے دو سیاہ پتھریلے میدانوں کے درمیان کا علاقہ حرم ہے۔“ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے، اگر میں مدینہ میں ہرنیاں چرتی دیکھوں تو میں انہیں پریشان یا ہراساں نہیں کروں گا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”اس کے دونوں حروں کا درمیان کا علاقہ حرم ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
معمر نے ہمیں زہری سے حدیث بیان کی، انہوں نے سعید بن مسیب سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے دو سیاہ پتھروں والے میدانوں کے درمیانی حصے کو حرم قرار دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں ان دو سیاہ پتھریلے میدانوں کے درمیان ہرنیوں کو پاؤں تو میں انہیں ہراساں نہیں کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے اردگرد بارہ میل کا علاقہ محفوظ چراگاہ قرار دیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے دونوں حروں کے درمیانی علاقہ کو حرمت والا قرار دیا ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، تو اگر میں اس کے دونوں حروں کے درمیان ہرنیوں کو پاؤں تو انہیں ہراساں یا خوف زدہ نہیں کروں گا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے گرد بارہ (12) میل کے علاقہ کو حمیٰ (ممنوعہ علاقہ جس میں نہ کوئی درخت کاٹا جا سکتا ہے، اور نہ کسی جانور کا شکار کیا جا سکتا ہے) قرار دیا ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدثنا قتيبة بن سعيد ، عن مالك بن انس ، فيما قرئ عليه، عن سهيل بن ابي صالح ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، انه قال: كان الناس إذا راوا اول الثمر جاءوا به إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فإذا اخذه رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " اللهم بارك لنا في ثمرنا، وبارك لنا في مدينتنا، وبارك لنا في صاعنا، وبارك لنا في مدنا، اللهم إن إبراهيم عبدك، وخليلك، ونبيك، وإني عبدك، ونبيك، وإنه دعاك لمكة، وإني ادعوك للمدينة، بمثل ما دعاك لمكة، ومثله معه "، قال: ثم يدعو اصغر وليد له، فيعطيه ذلك الثمر.حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِح ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّهُ قَالَ: كَانَ النَّاسُ إِذَا رَأَوْا أَوَّلَ الثَّمَرِ جَاءُوا بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا أَخَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي ثَمَرِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعَنْا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا، اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُكَ، وَخَلِيلُكَ، وَنَبِيُّكَ، وَإِنِّي عَبْدُكَ، وَنَبِيُّكَ، وَإِنَّهُ دَعَاكَ لِمَكَّةَ، وَإِنِّي أَدْعُوكَ لِلْمَدِينَةِ، بِمِثْلِ مَا دَعَاكَ لِمَكَّةَ، وَمِثْلِهِ مَعَهُ "، قَالَ: ثُمَّ يَدْعُو أَصْغَرَ وَلِيدٍ لَهُ، فَيُعْطِيهِ ذَلِكَ الثَّمَرَ. امام مالک بن انس کے سامنے جن احادیث کی قراءت کی گئی، ان میں سے سہیل بن ابی صالح نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: لوگ جب (کسی موسم کا) پہلا پھل دیکھتے تو اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اسے پکڑتے تو فرماتے: «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي ثَمَرِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا، اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُكَ، وَخَلِيلُكَ، وَنَبِيُّكَ، وَإِنِّي عَبْدُكَ، وَنَبِيُّكَ، وَإِنَّهُ دَعَاكَ لِمَكَّةَ، وَإِنِّي أَدْعُوكَ لِلْمَدِينَةِ، بِمِثْلِ مَا دَعَاكَ لِمَكَّةَ، وَمِثْلِهِ مَعَهُ» ”اے اللہ! ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما۔ ہمارے لیے شہر (مدینہ) میں برکت عطا فرما، ہمارے لیے ہمارے صاع میں برکت عطا فرما اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما۔ اے اللہ! بلاشبہ ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے، میں تیرا بندہ اور نبی ہوں، انہوں نے تجھ سے مکہ کے لیے دعا کی، میں تجھ سے مدینہ کے لیے اتنی (برکت) کی دعا کرتا ہوں جو انہوں نے مکہ کے لیے کی اور اس کے ساتھ اتنی ہی مزید برکت کی بھی۔“ (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر آپ اپنے بچوں میں سب سے چھوٹے بچے کو بلاتے اور وہ پھل اسے دے دیتے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں کا دستور تھا کہ جب وہ درخت پر پہلا پھل (نیا پھل) دیکھتے (تو اس کو لا کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو قبول فرما کر یوں دعا فرماتے: «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي ثَمَرِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعَنْا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا، اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُكَ، وَخَلِيلُكَ، وَنَبِيُّكَ، وَإِنِّي عَبْدُكَ، وَنَبِيُّكَ، وَإِنَّهُ دَعَاكَ لِمَكَّةَ، وَإِنِّي أَدْعُوكَ لِلْمَدِينَةِ، بِمِثْلِ مَا دَعَاكَ لِمَكَّةَ، وَمِثْلِهِ مَعَهُ» ”اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ میں برکت پیدا کر، اور ہمارے پھلوں اور پیداوار میں برکت فرما، اور ہمارے صاع میں برکت رکھ اور ہمارے مد میں برکت دے، اے اللہ! ابراہیم علیہ السلام تیرے خاص بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں، اور انہوں نے مکہ کے لیے دعا کی تھی اور میں مدینہ کے لیے تجھ سے ویسی ہی دعا کرتا ہوں، جیسی انہوں نے تجھ سے مکہ کے لیے دعا کی تھی، اور اس کے ساتھ اتنی ہی مزید،“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے چھوٹے بچے کو بلاتے اور وہ نیا پھل اسے دے دیتے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبدالعزیز بن محمد مدنی نے ہمیں سہیل بن ابی صالح سے خبر دی، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب (کسی موسم کا) پہلا پھل پیش کیا جاتا تو آپ فرماتے: ”اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے شہر (مدینہ) میں، ہمارے پھلوں میں، ہمارے مد میں اور ہمارے صاع میں برکت پر برکت فرما۔“ پھر آپ وہ پھل اپنے پاس موجود بچوں میں سب سے چھوٹے بچے کو دے دیتے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سب سے پہلا پھل لایا جاتا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں دعا فرماتے: ”اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ میں برکت دے اور ہمارے پھلوں میں اور ہمارے مد میں اور ہمارے صاع میں برکت در برکت فرما۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ پھل موجود بچوں میں سب سے چھوٹے بچے کو عنایت فرماتے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|