كِتَاب الْحَجِّ حج کے احکام و مسائل The Book of Pilgrimage 17. باب بَيَانِ وُجُوهِ الإِحْرَامِ وَأَنَّهُ يَجُوزُ إِفْرَادُ الْحَجِّ وَالتَّمَتُّعِ وَالْقِرَانِ وَجَوَازِ إِدْخَالِ الْحَجِّ عَلَى الْعُمْرَةِ وَمَتَى يَحِلُّ الْقَارِنُ مِنْ نُسُكِهِ: باب: احرام کی اقسام کابیان، اور حج افراد، تمتع، اور قران تینوں جائز ہیں، اور حج کا عمرہ پر داخل کرنا جائز ہے، اور حج قارن والا اپنے حج سے کب حلال ہو جائے؟ Chapter: Clarifying the types of Ihram; and that it is permissible to perfom Hajj that is Ifrad, Tamattu and Qiran. It is permissible to join Hajj to Umrah. And when the pilgrim who is performing Qiran should exit Ihram حدثنا يحيى بن يحيى التميمي ، قال: قرات على مالك ، عن ابن شهاب ، عن عروة ، عن عائشة رضي الله عنها انها قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حجة الوداع، فاهللنا بعمرة، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من كان معه هدي فليهل بالحج مع العمرة، ثم لا يحل حتى يحل منهما جميعا "، قالت: فقدمت مكة وانا حائض، لم اطف بالبيت ولا بين الصفا والمروة، فشكوت ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " انقضي راسك وامتشطي، واهلي بالحج، ودعي العمرة "، قالت: ففعلت فلما قضينا الحج، ارسلني رسول الله صلى الله عليه وسلم مع عبد الرحمن بن ابي بكر إلى التنعيم فاعتمرت، فقال: " هذه مكان عمرتك "، فطاف الذين اهلوا بالعمرة بالبيت وبالصفا والمروة، ثم حلوا، ثم طافوا طوافا آخر بعد ان رجعوا من منى لحجهم، واما الذين كانوا جمعوا الحج والعمرة، فإنما طافوا طوافا واحدا.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَأَهْلَلْنَا بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيُهِلَّ بِالْحَجِّ مَعَ الْعُمْرَةِ، ثُمَّ لَا يَحِلُّ حَتَّى يَحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا "، قَالَتْ: فَقَدِمْتُ مَكَّةَ وَأَنَا حَائِضٌ، لَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ وَلَا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " انْقُضِي رَأْسَكِ وَامْتَشِطِي، وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ، وَدَعِي الْعُمْرَةَ "، قَالَتْ: فَفَعَلْتُ فَلَمَّا قَضَيْنَا الْحَجَّ، أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ إِلَى التَّنْعِيمِ فَاعْتَمَرْتُ، فَقَالَ: " هَذِهِ مَكَانُ عُمْرَتِكِ "، فَطَافَ الَّذِينَ أَهَلُّوا بِالْعُمْرَةِ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ حَلُّوا، ثُمَّ طَافُوا طَوَافًا آخَرَ بَعْدَ أَنْ رَجَعُوا مِنْ مِنًى لِحَجِّهِمْ، وَأَمَّا الَّذِينَ كَانُوا جَمَعُوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ، فَإِنَّمَا طَافُوا طَوَافًا وَاحِدًا. مالک نے ابن شہاب سے انہوں نے عروہ سے انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہم حجۃ الوداع کے سال (اس کی ادائیگی کے لیے) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے اور ہم (میں سے کچھ) نے عمرے کے لیے (احرام باندھ کر) تلبیہ کہا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قربانی کا جانور جس کے ساتھ ہو وہ عمرے کے ساتھ ہی حج کا بھی تلبیہ پکارے اور اس وقت تک احرام نہ کھولے جب تک دونوں (کے لیے عائد کردہ احرام کی پابندیوں) سے آزاد نہ ہو جائے۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا جب میں مکہ پہنچی تو ایام مخصوصہ میں تھی میں نے نہ حج کا طواف کیا اور نہ صفا مروہ کے درمیان سعی کی میں نے اس (صورت حال) کا شکوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: ”اپنے سر کے بال کھولو اور کنگھی کرو (پھر) حج کا تلبیہ پکارنا شروع کردو اور عمرے کو چھوڑدو۔“ انہوں نے کہا: میں نے ایسا ہی کیا پھر جب ہم نے حج ادا کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (میرے بھائی) عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تنعیم بھیجا میں نے (وہاں سے احرام باندھ کر) عمرہ کیا۔ آپ نے فرمایا: ”یہ (عمرہ) تمہارے (اس رہ جانے والے) عمرے کی جگہ ہے۔“ جن لوگوں نے عمرے کے لیے تلبیہ پکارا تھا۔ انہوں نے بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف کیا اور پھر احرام کھول دیا۔ پھر جب وہ لوگ (حج کے دوران میں) منیٰ سے لوٹے تو انہوں نے اپنے حج کے لیے دوسری بار طواف کیا البتہ وہ لوگ جنہوں نے حج اور عمرے کو جمع کیا تھا (حج قران کیا تھا) تو انہوں نے (صفا مروہ کا) ایک ہی طواف کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حجۃ الوداع کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور ہم نے عمرے کا احرام باندھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس ہدی ہے تو وہ عمرہ کے ساتھ حج کے لیے بھی تلبیہ کہے، پھر وہ جب تک دونوں سے حلال نہ ہو جائے، اس وقت تک احرام نہ کھولے۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں میں مکہ، حیض کی حالت میں پہنچی، اس لیے بیت اللہ کا طواف نہ کر سکی اور نہ ہی صفا و مروہ کی سعی کر سکی تو میں نے اس کا شکوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے سر کے بال کھول دے اور کنگھی کر لے اور حج کا تلبیہ کہہ اور عمرہ کے افعال چھوڑ دے۔“ تو میں نے ایسے ہی کیا، جب ہم حج سے فارغ ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مقام تنعیم بھیجا، میں نے عمرہ کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تمہارے عمرے کی جگہ ہے۔“ تو جن لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا، انہوں نے بیت اللہ، صفا اور مروہ کے چکر لگائے، پھر احرام کھول دیا، پھر جب وہ منیٰ سے واپس آئے تو انہوں نے اپنے حج کے لیے دوبارہ طواف کیا، لیکن جن لوگوں نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا، انہوں نے ایک ہی طواف کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

وحدثنا عبد الملك بن شعيب بن الليث ، حدثني ابي ، عن جدي ، حدثني عقيل بن خالد ، عن ابن شهاب ، عن عروة بن الزبير ، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، انها قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حجة الوداع، فمنا من اهل بعمرة ومنا من اهل بحج، حتى قدمنا مكة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من احرم بعمرة، ولم يهد فليحلل، ومن احرم بعمرة واهدى، فلا يحل حتى ينحر هديه، ومن اهل بحج فليتم حجه "، قالت عائشة رضي الله عنها: فحضت فلم ازل حائضا حتى كان يوم عرفة ولم اهلل إلا بعمرة، فامرني رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ان انقض راسي وامتشط، واهل بحج واترك العمرة "، قالت: ففعلت ذلك حتى إذا قضيت حجتي، بعث معي رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد الرحمن بن ابي بكر، وامرني ان اعتمر من التنعيم مكان عمرتي، التي ادركني الحج ولم احلل منها ".وحَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ، حَتَّى قَدِمْنَا مَكَّةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَحْرَمَ بِعُمْرَةٍ، وَلَمْ يُهْدِ فَلْيَحْلِلْ، وَمَنْ أَحْرَمَ بِعُمْرَةٍ وَأَهْدَى، فَلَا يَحِلُّ حَتَّى يَنْحَرَ هَدْيَهُ، وَمَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ فَلْيُتِمَّ حَجَّهُ "، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: فَحِضْتُ فَلَمْ أَزَلْ حَائِضًا حَتَّى كَانَ يَوْمُ عَرَفَةَ وَلَمْ أُهْلِلْ إِلَّا بِعُمْرَةٍ، فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنْ أَنْقُضَ رَأْسِي وَأَمْتَشِطَ، وَأُهِلَّ بِحَجٍّ وَأَتْرُكَ الْعُمْرَةَ "، قَالَتْ: فَفَعَلْتُ ذَلِكَ حَتَّى إِذَا قَضَيْتُ حَجَّتِي، بَعَثَ مَعِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، وَأَمَرَنِي أَنْ أَعْتَمِرَ مِنَ التَّنْعِيمِ مَكَانَ عُمْرَتِي، الَّتِي أَدْرَكَنِي الْحَجُّ وَلَمْ أَحْلِلْ مِنْهَا ". عقیل بن خالد نے ابن شہاب سے انہوں نے عروہ بن زبیر سے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی انہوں نے کہا: ہم حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ہم میں سے بعض نے عمرے کے لیے تلبیہ پکارا اور بعض نے (صرف) حج کے لیے حتیٰ کہ ہم مکہ پہنچ گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے عمرے کے لیے تلبیہ پکارا تھا وہ قربانی نہیں لایا۔ وہ احرام کھول دے۔ اور جس نے عمرے کا احرام باندھا تھا اور ساتھ قربانی بھی لائی ہے وہ جب تک قربانی ذبح نہ کرلے احرام ختم نہ کرے۔ اور جس نے صرف حج کے لیے تلبیہ کہا تھا وہ اپنا حج مکمل کرے۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا مجھے (راستے میں) ایام شروع ہو گئے۔ میں عرفہ کے دن تک ایام ہی میں رہی اور میں نے صرف عمرے کے لیے تلبیہ پکارا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنے سر کے بال کھولوں کنگھی کروں اور حج کے لیے تلبیہ پکاروں اور عمرے (کے اعمال) چھوڑدوں تو میں نے یہی کیا۔ جب میں نے اپنا حج ادا کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ (میرے بھائی) عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور مجھے حکم دیا کہ میں اس عمرے کی جگہ عمرہ کرلوں جسے حج کا دن آجانے کی بنا پر مکمل کرکے میں اس کا احرام نہ کھول پائی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم حجۃ الوداع کے سال، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو ہم میں سے بعض نے عمرہ کا تلبیہ کہا اور کسی نے حج کا، حتی کہ ہم مکہ پہنچ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہے اور اس کے پاس قربانی نہیں ہے، وہ حلال ہو جائے، (تحلیق و تقصیر کر لے) اور جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہے اور قربانی ساتھ لایا ہے تو وہ اس وقت تک احرام نہ کھولے، جب تک ہدی نحر نہ کر لے اور جس نے صرف حج کا احرام باندھا ہے، وہ اپنا حج پورا کر لے۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مجھے حیض آنے لگا اور میں عرفہ کے دن تک حائضہ ہی رہی اور میں نے عمرہ کا ہی تلبیہ کہا تھا تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں سر کے بال کھول لوں اور کنگھی کر لوں اور حج کا تلبیہ کہوں اور افعال عمرہ چھوڑ دوں تو میں نے ایسے ہی کیا، حتی کہ جب میں اپنے حج سے فارغ ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیجا اور مجھے حکم دیا کہ میں اپنے عمرہ کی جگہ، تنعیم سے عمرہ کر لوں، جس سے میں حج کا دن آنے تک حلال نہیں ہو سکی تھی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

وحدثنا عبد بن حميد ، اخبرنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم عام حجة الوداع، فاهللت بعمرة ولم اكن سقت الهدي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " من كان معه هدي فليهلل بالحج مع عمرته، ثم لا يحل حتى يحل منهما جميعا "، قالت: فحضت فلما دخلت ليلة عرفة، قلت يا رسول الله: إني كنت اهللت بعمرة، فكيف اصنع بحجتي؟، قال: " انقضي راسك وامتشطي، وامسكي عن العمرة واهلي بالحج "، قالت: فلما قضيت حجتي امر عبد الرحمن بن ابي بكر فاردفني، فاعمرني من التنعيم مكان عمرتي التي امسكت عنها.وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ وَلَمْ أَكُنْ سُقْتُ الْهَدْيَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيُهْلِلْ بِالْحَجِّ مَعَ عُمْرَتِهِ، ثُمَّ لَا يَحِلَّ حَتَّى يَحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا "، قَالَتْ: فَحِضْتُ فَلَمَّا دَخَلَتْ لَيْلَةُ عَرَفَةَ، قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ: إِنِّي كُنْتُ أَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ، فَكَيْفَ أَصْنَعُ بِحَجَّتِي؟، قَالَ: " انْقُضِي رَأْسَكِ وَامْتَشِطِي، وَأَمْسِكِي عَنِ الْعُمْرَةِ وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ "، قَالَتْ: فَلَمَّا قَضَيْتُ حَجَّتِي أَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ فَأَرْدَفَنِي، فَأَعْمَرَنِي مِنَ التَّنْعِيمِ مَكَانَ عُمْرَتِي الَّتِي أَمْسَكْتُ عَنْهَا. معمر نے زہری سے انہوں نے عروہ سے انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی انہوں نے کہا حجۃ الوداع کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج کے سفر کے لیے) نکلے۔ میں نے عمرے کے لیے تلبیہ پکارا تھا لیکن (اپنے) ساتھ قربانی نہیں لائی تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے ساتھ قربانی کے جانور ہوں وہ اپنے عمرے کے ساتھ حج کا تلبیہ پکارے اور اس وقت تک احرام نہ کھولے جب تک ان دونوں سے فارغ نہ ہو جائے۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: مجھے ایام شروع ہو گئے جب عرفہ کی رات آگئی میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے تو عمرے کے لیے تلبیہ پکارا تھا۔ اب میں اپنے حج کا کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ”اپنے سر کے بال کھولو کنگھی کرو اور عمرے سے رک جاؤ حج کے لیے تلبیہ پکارو۔“ انہوں نے کہا: جب میں نے اپنا حج مکمل کر لیا (تو آپ نے میرے بھائی) عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا انہوں نے مجھے سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا اور مقام تنعیم سے اس عمرے کی جگہ جس سے میں رک گئی تھی (دوسرا) عمرہ کروادیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم حجۃ الوداع کے سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، میں نے عمرہ کا احرام باندھا اور میں نے اپنے ساتھ ہدی نہیں لی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے ساتھ ہدی ہے، وہ اپنے عمرے کے ساتھ حج کا احرام باندھ لے، پھر وہ اس وقت تک حلال نہ ہو جب تک دونوں سے حلال نہ ہو جائے۔“ تو مجھے حیض شروع ہو گیا تو جب عرفہ کی رات آئی، میں نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے تو عمرہ کا احرام باندھا تھا تو میں اپنے حج کے بارے میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے سر کھول دے، کنگھی کر لے اور عمرہ کے افعال سے رک جا اور تلبیہ کہہ۔“ تو جب میں اپنے حج سے فارغ ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو حکم دیا، اس نے مجھے اپنے پیچھے سوار کر کے میرے اس عمرہ کی جگہ، جس کے ادا کرنے سے میں رک گئی تھی، مجھے تنعیم سے عمرہ کروایا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدثنا ابن ابي عمر ، حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " من اراد منكم ان يهل بحج وعمرة فليفعل، ومن اراد ان يهل بحج فليهل، ومن اراد ان يهل بعمرة فليهل "، قالت عائشة رضي الله عنها: فاهل رسول الله صلى الله عليه وسلم بحج، واهل به ناس معه، واهل ناس بالعمرة والحج، واهل ناس بعمرة، وكنت فيمن اهل بالعمرة.حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " مَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ أَنْ يُهِلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُهِلَّ بِحَجٍّ فَلْيُهِلَّ، وَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُهِلَّ بِعُمْرَةٍ فَلْيُهِلَّ "، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: فَأَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَجٍّ، وَأَهَلَّ بِهِ نَاسٌ مَعَهُ، وَأَهَلَّ نَاسٌ بِالْعُمْرَةِ وَالْحَجِّ، وَأَهَلَّ نَاسٌ بِعُمْرَةٍ، وَكُنْتُ فِيمَنْ أَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ. سفیان نے زہری سے انہوں نے عروہ سے انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی انہوں نے کہا: ہم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر حج کے لیے) نکلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو اکٹھے عمرے اور حج کے لیے تلبیہ پکارنا چاہتا ہے پکارے۔ جو (صرف) حج کے لیے تلبیہ پکارنا چاہتا ہے پکارے اور جو (صرف) عمرے کے لیے پکارنا چاہے وہ ایسا کرلے۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے لیے تلبیہ پکارا اور آپ کے ساتھ کئی لوگوں نے (اکیلے حج کے لیے) تلبیہ کہا کئی لوگوں نے عمرے اور حج (دونوں) کے لیے تلبیہ کہا اور کئی لوگوں نے صرف عمرے کے لیے کہا اور میں ان لوگوں میں شامل تھی جنہوں نے صرف عمرے کا تلبیہ کہا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو حج اور عمرہ کا احرام باندھنا چاہے، ایسا کر لے اور جو صرف حج کا احرام باندھنا چاہے، وہ حج کا احرام باندھ لے اور جو عمرہ کا احرام باندھنا چاہے، وہ اس کا احرام باندھ لے۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا احرام باندھا اور کچھ لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کا احرام باندھا اور کچھ لوگوں نے عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھا اور کچھ لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا اور میں بھی ان لوگوں میں تھی، جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبدة بن سليمان ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع، موافين لهلال ذي الحجة، قالت: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من اراد منكم ان يهل بعمرة فليهل، فلولا اني اهديت لاهللت بعمرة "، قالت: فكان من القوم من اهل بعمرة، ومنهم من اهل بالحج، قالت: فكنت انا ممن اهل بعمرة فخرجنا حتى قدمنا مكة، فادركني يوم عرفة وانا حائض، لم احل من عمرتي فشكوت ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " دعي عمرتك، وانقضي راسك وامتشطي واهلي بالحج "، قالت: ففعلت فلما كانت ليلة الحصبة، وقد قضى الله حجنا، ارسل معي عبد الرحمن بن ابي بكر، فاردفني وخرج بي إلى التنعيم، فاهللت بعمرة فقضى الله حجنا وعمرتنا، ولم يكن في ذلك هدي ولا صدقة ولا صوم،وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، مُوَافِينَ لِهِلَالِ ذِي الْحِجَّةِ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ أَنْ يُهِلَّ بِعُمْرَةٍ فَلْيُهِلَّ، فَلَوْلَا أَنِّي أَهْدَيْتُ لَأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ "، قَالَتْ: فَكَانَ مِنَ الْقَوْمِ مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَمِنْهُمْ مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ، قَالَتْ: فَكُنْتُ أَنَا مِمَّنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ فَخَرَجْنَا حَتَّى قَدِمْنَا مَكَّةَ، فَأَدْرَكَنِي يَوْمُ عَرَفَةَ وَأَنَا حَائِضٌ، لَمْ أَحِلَّ مِنْ عُمْرَتِي فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " دَعِي عُمْرَتَكِ، وَانْقُضِي رَأْسَكِ وَامْتَشِطِي وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ "، قَالَتْ: فَفَعَلْتُ فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ، وَقَدْ قَضَى اللَّهُ حَجَّنَا، أَرْسَلَ مَعِي عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، فَأَرْدَفَنِي وَخَرَجَ بِي إِلَى التَّنْعِيمِ، فَأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ فَقَضَى اللَّهُ حَجَّنَا وَعُمْرَتَنَا، وَلَمْ يَكُنْ فِي ذَلِكَ هَدْيٌ وَلَا صَدَقَةٌ وَلَا صَوْمٌ، عبدہ بن سلیمان نے ہشام سے انہوں نے اپنے والد (عروہ) سے انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی انہوں نے کہا ہم حجۃ الوداع کے موقع پر ذوالحجہ کا چاند نکلنے کے قریب قریب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو صرف عمرے کے لیے تلبیہ کہنا چاہتا ہے کہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میں قربانی ساتھ لایا ہوں تو میں بھی عمرے کا تلبیہ کہتا۔“ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: لوگوں میں کچھ ایسے تھے جنہوں نے صرف عمرے کا تلبیہ کہا اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے صرف حج کا تلبیہ کہا اور میں ان لوگوں میں سے تھی جنہوں نے صرف عمرے کا تلبیہ کہا۔ ہم نکل پڑے حتیٰ کہ مکہ آگئے میرے لیے عرفہ کا دن اس طرح آیا کہ میں ایام میں تھی اور میں نے (ابھی) عمرے (کی تکمیل کرکے اس) کا احرام کھولا نہیں تھا میں نے اس (بات) کا شکوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنا عمرہ چھوڑدو اپنی سر کی مینڈھیاں کھول دو کنگھی کرلو اور حج کا تلبیہ کہنا شروع کردو۔“ انہوں نے کہا: میں نے یہی کیا جب حصبہ کی رات آگئی اور اللہ تعالیٰ نے ہمارا حج مکمل فرمادیا تھا تو (آپ نے) میرے ساتھ (میرے بھائی) عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو بھیجا انہوں نے مجھے ساتھ بٹھایا اور مجھے لے کر تنعیم کی طرف نکل پڑے وہاں سے میں نے عمرے کا تلبیہ کہا۔ اس طرح اللہ نے ہمارا حج پورا کرادیا اور عمرہ بھی۔ (ہشام نے کہا: اس (الگ عمرے) کے لیے نہ قربانی کا کوئی جانور (ساتھ لایا گیا) تھا نہ صدقہ تھا اور نہ روزہ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان میں سے کوئی کام کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی)۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم حجۃ الوداع کے موقع پر ذوالحجہ کے چاند کے طلوع کے قریبی دنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (راستہ میں) فرمایا: ”تم میں سے جو عمرہ کا احرام باندھنا چاہے، وہ اس کا احرام باندھ لے، اگر میں قربانی ساتھ نہ لاتا تو میں بھی عمرہ کا احرام باندھتا۔“ تو لوگوں میں سے کچھ نے عمرہ کا احرام باندھ لیا اور کچھ نے حج کا احرام باندھ لیا اور میں ان لوگوں میں سے تھی، جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا، ہم چلتے چلتے مکہ پہنچ گئے، مجھے عرفہ کا دن اس طرح آیا کہ میں حائضہ تھی اور میں نے عمرہ کا احرام نہیں کھولا تھا، میں نے اس کا شکوہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمرہ کے افعال چھوڑ دو اور اپنا سر کھول دو اور کنگھی کر لو حج کا تلبیہ کہو۔“ میں نے ایسے ہی کیا، جب مَحْصَبْ کی رات آ گئی اور اللہ تعالیٰ نے ہمارا حج پورا کر دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ سلم نے میرے ساتھ عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو بھیجا، اس نے مجھے پیچھے سوار کر لیا اور مجھے لے کر تنعیم کی طرف نکل کھڑے ہوئے میں نے عمرہ کا احرام باندھا، اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارا حج اور الگ عمرہ پورا کر دیا۔ (ہشام کہتے ہیں) اس الگ عمرہ کے لے ہدی، صدقہ یا روزہ کی ضرورت نہ پڑی۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم 25 ذوالحجہ کو مدینے سے نکلے تھے۔)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا ابو كريب ، حدثنا ابن نمير ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: خرجنا موافين مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لهلال ذي الحجة، لا نرى إلا الحج، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من احب منكم ان يهل بعمرة فليهل بعمرة "، وساق الحديث بمثل حديث عبدة،وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مُوَافِينَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِهِلَالِ ذِي الْحِجَّةِ، لَا نَرَى إِلَّا الْحَجَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُهِلَّ بِعُمْرَةٍ فَلْيُهِلَّ بِعُمْرَةٍ "، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ عَبْدَةَ، ابن نمیر نے ہشام سے سابقہ سند کے ساتھ روایت کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ذوالحجہ کا چاند نکلنے کے قریب قریب (حج کے لیے) نکلے اور ہمارے پیش نظر صرف حج ہی تھا۔ (لیکن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو عمرے کا تلبیہ پکارنا چاہے وہ (اکیلے) عمرے کا تلبیہ پکارے۔“ پھر عبدہ کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ہم ذوالحجہ کے چاند کے قریب دنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور ہمارا خیال صرف حج کرنے کا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو عمرہ کا احرام باندھنا پسند کرے تو وہ عمرہ کا احرام باندھ لے۔“ آگے مذکورہ بالا روایت بیان کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا ابو كريب ، حدثنا وكيع ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم موافين لهلال ذي الحجة، منا من اهل بعمرة ومنا من اهل بحجة وعمرة، ومنا من اهل بحجة، فكنت فيمن اهل بعمرة، وساق الحديث بنحو حديثهما، وقال فيه: قال عروة في ذلك: إنه قضى الله حجها وعمرتها، قال هشام: ولم يكن في ذلك هدي ولا صيام ولا صدقة.وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُوَافِينَ لِهِلَالِ ذِي الْحِجَّةِ، مِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجَّةٍ، فَكُنْتُ فِيمَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِهِمَا، وقَالَ فِيهِ: قَالَ عُرْوَةُ فِي ذَلِكَ: إِنَّهُ قَضَى اللَّهُ حَجَّهَا وَعُمْرَتَهَا، قَالَ هِشَامٌ: وَلَمْ يَكُنْ فِي ذَلِكَ هَدْيٌ وَلَا صِيَامٌ وَلَا صَدَقَةٌ. وکیع نے ہشام سے سابقہ سند کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی انہوں نے کہا: ہم ذوالحجہ کا چاند نکلنے کے قریب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج کے لیے مدینہ سے) نکلے ہم میں سے بعض نے عمرے کا تلبیہ پکارا بعض نے حج کا۔ اور میں ان لوگوں میں شامل تھی جنہوں نے صرف عمرے کا تلبیہ پکارا تھا۔ اور (وکیع نے) آگے ان دونوں (عبدہ اور ابن نمیر) کی طرح حدیث بیان کی۔ اور اس میں یہ کہا عروہ نے اس کے بارے میں کہا: بلاشبہ اللہ نے ان (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے) اس طرح عمرہ کرنے میں نہ کوئی قربانی تھی نہ روزہ اور نہ صدقہ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ہم ذوالحجہ کے چاند کے نظر آنے کے قریبی دنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہم میں سے کسی نے عمرہ کا احرام باندھا اور ہم میں سے کسی نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا اور ہم میں سے بعض نے صرف حج کا احرام باندھا اور میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا، آگے مذکورہ بالا دونوں روایتوں کی طرح بیان کیا اور اس حدیث میں یہ بھی ہے، عروہ نے اس کے بارے میں کہا، اللہ تعالیٰ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حج اور عمرہ دونوں مکمل کر دے اور ہشام کہتے ہیں، عمرہ کو حج میں داخل کرنے کی بنا پر قربانی یا روزے یا صدقہ لازم نہیں آیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن ابي الاسود محمد بن عبد الرحمن بن نوفل ، عن عروة ، عن عائشة رضي الله عنها انها قالت: " خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حجة الوداع، فمنا من اهل بعمرة، ومنا من اهل بحج وعمرة، ومنا من اهل بالحج، واهل رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحج، فاما من اهل بعمرة فحل، واما من اهل بحج او جمع الحج والعمرة فلم يحلوا، حتى كان يوم النحر ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ، وَأَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ، فَأَمَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ فَحَلَّ، وَأَمَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ أَوْ جَمَعَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ فَلَمْ يَحِلُّوا، حَتَّى كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ ". محمد بن عبدالرحمان بن نوفل نے عروہ سے انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی انہوں نے کہا: ہم حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ ہم میں سے کچھ ایسے تھے جنہوں نے (صرف) عمرے کا تلبیہ کہا بعض نے حج اور عمرے دونوں کا اور بعض نے صرف حج کا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا تلبیہ پکارا۔ جس نے عمرے کا تلبیہ کہا تھا وہ تو (عمرے کی تکمیل کے بعد) حلال ہو گیا اور جنہوں نے صرف حج کا یا حج اور عمرے دونوں کا تلبیہ کہا تھا اور قربانی کے جانور ساتھ لائے تھے وہ لوگ قربانی کا دن آنے تک احرام کی پابندیوں سے آزاد نہیں ہوئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو ہم میں سے بعض کو عمرہ کا احرام تھا، بعض نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا اور بعض نے صرف حج کا احرام باندھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا احرام باندھا، جن لوگوں نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا، وہ (عمرے کے افعال ادا کرنے کے بعد) حلال ہو گئے، رہے وہ لوگ جنہوں نے صرف حج کا احرام باندھا تھا، یا حج اور عمرہ کا احرام باندھا تھا، انہوں نے احرام نہ کھولا، یہاں تک کہ قربانی کا دن آ گیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعمرو الناقد ، وزهير بن حرب جميعا، عن ابن عيينة ، قال عمرو: حدثنا سفيان بن عيينة، عن عبد الرحمن بن القاسم ، عن ابيه ، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ولا نرى إلا الحج حتى إذا كنا بسرف او قريبا منها حضت، فدخل علي النبي صلى الله عليه وسلم وانا ابكي، فقال: " انفست " يعني الحيضة، قالت: قلت: نعم، قال: " إن هذا شيء كتبه الله على بنات آدم، فاقضي ما يقضي الحاج، غير ان لا تطوفي بالبيت حتى تغتسلي "، قالت: وضحى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نسائه بالبقر.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ جَمِيعًا، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ عَمْرٌو: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نَرَى إِلَّا الْحَجَّ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِسَرِفَ أَوْ قَرِيبًا مِنْهَا حِضْتُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ: " أَنَفِسْتِ " يَعْنِي الْحَيْضَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " إِنَّ هَذَا شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَاقْضِي مَا يَقْضِي الْحَاجُّ، غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَغْتَسِلِي "، قَالَتْ: وَضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِهِ بِالْبَقَرِ. قاسم نے اپنے والد (محمد بن ابی بکر) سے انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور ہمارے پیش نظر حج کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ جب ہم مقام سرف یاس کے قریب پہنچے تو مجھے ایام شروع ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور مجھے روتا ہوا پایا۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تمہارے ایام شروع ہو گئے ہیں؟“ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: میں نے جواب دیا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ یہ چیز اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے لکھ (کر مقدر کر) دی ہے تم (سارے) کام ویسے ہی سر انجام دو جیسے حاجی کرتے ہیں سوائے یہ کہ جب تک غسل نہ کرلو بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔“ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا (اس حج میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور اس وقت ہمارا خیال صرف حج کرنے کا تھا، حتی کہ جب ہم مقام سرف پر پہنچے یا اس کے قریب پہنچے، مجھے ماہواری آ گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، جبکہ میں رو رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کیا تجھے نفاس یعنی حیض آ گیا ہے، میں نے جواب دیا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو ایسی چیز جسے اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی بیٹیوں کے لیے لازم ٹھہرایا ہے، (ان کی طبیعت و مزاج کا جزہے) جو کام حاجی کرتے ہیں، وہ کرو، ہاں اتنی بات ہے کہ پاکیزگی کے غسل سے پہلے بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج کی طرف سے گائے کی قربانی کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدثني سليمان بن عبيد الله ابو ايوب الغيلاني ، حدثنا ابو عامر عبد الملك بن عمرو ، حدثنا عبد العزيز بن ابي سلمة الماجشون ، عن عبد الرحمن بن القاسم ، عن ابيه ، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لا نذكر إلا الحج حتى جئنا سرف، فطمثت فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا ابكي، فقال: " ما يبكيك "، فقلت: والله لوددت اني لم اكن خرجت العام، قال: " ما لك لعلك نفست "، قلت: نعم، قال: " هذا شيء كتبه الله على بنات آدم، افعلي ما يفعل الحاج، غير ان لا تطوفي بالبيت حتى تطهري "، قالت: فلما قدمت مكة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لاصحابه: " اجعلوها عمرة "، فاحل الناس إلا من كان معه الهدي، قالت: فكان الهدي مع النبي صلى الله عليه وسلم وابي بكر، وعمر وذوي اليسارة، ثم اهلوا حين راحوا، قالت: فلما كان يوم النحر طهرت، فامرني رسول الله صلى الله عليه وسلم فافضت، قالت: فاتينا بلحم بقر، فقلت: ما هذا؟، فقالوا: اهدى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نسائه البقر، فلما كانت ليلة الحصبة، قلت: يا رسول الله يرجع الناس بحجة وعمرة وارجع بحجة، قالت: " فامر عبد الرحمن بن ابي بكر، فاردفني على جمله "، قالت: فإني لاذكر وانا جارية حديثة السن، انعس فيصيب وجهي مؤخرة الرحل، حتى جئنا إلى التنعيم فاهللت منها بعمرة جزاء بعمرة الناس التي اعتمروا،حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ أَبُو أَيُّوبَ الْغَيْلَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَذْكُرُ إِلَّا الْحَجَّ حَتَّى جِئْنَا سَرِفَ، فَطَمِثْتُ فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ: " مَا يُبْكِيكِ "، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ خَرَجْتُ الْعَامَ، قَالَ: " مَا لَكِ لَعَلَّكِ نَفِسْتِ "، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " هَذَا شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، افْعَلِي مَا يَفْعَلُ الْحَاجُّ، غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي "، قَالَتْ: فَلَمَّا قَدِمْتُ مَكَّةَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: " اجْعَلُوهَا عُمْرَةً "، فَأَحَلَّ النَّاسُ إِلَّا مَنْ كَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ، قَالَتْ: فَكَانَ الْهَدْيُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ وَذَوِي الْيَسَارَةِ، ثُمَّ أَهَلُّوا حِينَ رَاحُوا، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ طَهَرْتُ، فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَفَضْتُ، قَالَتْ: فَأُتِيَنَا بِلَحْمِ بَقَرٍ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟، فَقَالُوا: أَهْدَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِهِ الْبَقَرَ، فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ يَرْجِعُ النَّاسُ بِحَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ وَأَرْجِعُ بِحَجَّةٍ، قَالَتْ: " فَأَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، فَأَرْدَفَنِي عَلَى جَمَلِهِ "، قَالَتْ: فَإِنِّي لَأَذْكُرُ وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ، أَنْعَسُ فَيُصِيبُ وَجْهِي مُؤْخِرَةَ الرَّحْلِ، حَتَّى جِئْنَا إِلَى التَّنْعِيمِ فَأَهْلَلْتُ مِنْهَا بِعُمْرَةٍ جَزَاءً بِعُمْرَةِ النَّاسِ الَّتِي اعْتَمَرُوا، عبدالرحمان بن سلمہ ماجثون نے عبدالرحمان بن قاسم سے انہوں نے اپنے والد (قاسم) سے انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی۔ (انہوں نے) کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور حج ہی کا ذکر کر رہے تھے۔ جب ہم سرف کے مقام پر پہنچے تو میرے ایام شروع ہو گئے۔ (اس اثنا میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے (حجرے میں) داخل ہوئے تو میں رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہیں کیا رلا رہا ہے؟ میں نے جواب دیا، اللہ کی قسم! کاش میں اس سال حج کے لیے نہ نکلتی۔ آپ نے پوچھا: تمہارے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ کہیں تمہیں ایام تو شروع نہیں ہو گئے؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”یہ چیز تو اللہ نے آدم علیہ السلام کی بیٹیوں کے لیے مقدر کردی ہے۔ تم تمام کام ویسے کرتی جاؤ جیسے (تمام) حاجی کریں مگر جب تک پاک نہ ہو جاؤ بیت اللہ کا طواف نہ کرو۔“ انہوں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) نے کہا: جب میں مکہ پہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا: ”تم اسے (حج کی نیت کو بدل کر) عمرہ کرلو۔“ جن کے پاس قربانیاں تھیں ان کے علاوہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے (اسی کے مطابق عمرے کا) تلبیہ پکارنا شروع کردیا۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا اور قربانیاں (صرف) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر و عمر اور (بعض) اصحاب ثروت رضوان اللہ علیہم اجمعین (ہی) کے پاس تھیں۔ جب وہ چلے تو انہوں نے (حج) کا تلبیہ پکارا۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: جب قربانی کا دن آیا تو میں پاک ہوگئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تو میں نے طواف (افاضہ) کرلیا۔ (انہوں نے) کہا: ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں (لانے والوں) نے جواب دیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی دی ہے۔ جب (مدینہ کے راستے منیٰ کے فوراً بعد کی منزل) محصب کی رات آئی تو میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول! لوگ حج اور عمرہ (دونوں) کرکے لوٹیں اور میں (اکیلا) حج کرکے لوٹوں؟ کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (میرے بھائی) عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا انہوں نے مجھے اپنے اونٹ پر ساتھ بٹھایا۔ (انہوں نے) کہا: مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں اس وقت نو عمر لڑکی تھی (راستے میں) میں اونگھ رہی تھی اور میرا منہ (بار بار) کجاوے کی پچھلی لکڑی سے ٹکراتا تھا حتیٰ کہ ہم تنعیم پہنچ گئے۔ پھر میں نے وہاں سے اس عمرے کے بدلے جو لوگوں نے کیا تھا (اور میں اس سے محروم رہ گئی تھی) عمرے کا (احرام باندھ کر) تلبیہ پکارا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہمیں صرف حج پیش نظر تھا، حتی کہ ہم مقام سرف پر پہنچے تو مجھے حیض شروع ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے جبکہ میں رو رہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کیوں رو رہی ہو؟ میں نے عرض کیا، اللہ کی قسم! میری خواہش ہے کہ میں اس سال حج کے لیے نہ نکلتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھے کیا ہوا؟ شاید تمہیں حیض شروع ہو گیا ہے؟“ میں نے عرض کیا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو ایسا معاملہ ہے جو اللہ نے آدم علیہ السلام کی بیٹیوں کے لیے لازم ٹھہرایا ہے، جو کام حاجی کرتے ہیں، تم بھی کرو، صرف اتنی بات ہے کہ جب تک پاک نہ ہو جاؤ، بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔“ تو جب میں مکہ پہنچی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا: ”اپنے حج کو عمرہ بنا ڈالو۔“ تو تمام لوگ ان کے سوا جن کے پاس ہدی تھی، حلال ہو گئے اور ہدی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور اصحاب ثروت رضی اللہ عنہم اجمعین کے پاس تھی، پھر جب وہ منیٰ کی طرف چلے تو انہوں نے احرام باندھ لیا تو جب قربانی کا دن آ گیا، میں پاک ہو گئی، (حیض آنا بند ہو گیا) مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف افاضہ کا حکم دیا، پھر ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے پوچھا، یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے ہدی میں گائے ذبح کی ہے، جب مَحصَب کی رات ہوئی، میں نے عرض کیا، لوگ الگ حج اور عمرہ کر کے لوٹیں گے اور میں صرف حج کر کے لوٹوں گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا، اس نے مجھے اپنے اونٹ پر پیچھے سوار کر لیا، مجھے اچھی طرح یاد ہے، میں نو عمر لڑکی تھی، مجھے اونگھ آ جاتی تو میرا چہرہ پالان کی پچھلی لکڑی سے ٹکراتا، حتی کہ ہم تنعیم پہنچ گئے، میں نے وہاں سے عمرہ کا احرام باندھا جو لوگوں کے اس عمرہ کی جگہ تھا، جو انہوں نے کیا تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

وحدثني ابو ايوب الغيلاني ، حدثنا بهز ، حدثنا حماد ، عن عبد الرحمن ، عن ابيه ، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: لبينا بالحج حتى إذا كنا بسرف حضت، فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا ابكي، وساق الحديث بنحو حديث الماجشون، غير ان حمادا ليس في حديثه: فكان الهدي مع النبي صلى الله عليه وسلم وابي بكر، وعمر، وذوي اليسارة، ثم اهلوا حين راحوا، ولا قولها: وانا جارية حديثة السن انعس، فيصيب وجهي مؤخرة الرحل.وحَدَّثَنِي أَبُو أَيُّوبَ الْغَيْلَانِيُّ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: لَبَّيْنَا بِالْحَجِّ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِسَرِفَ حِضْتُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ الْمَاجِشُونِ، غَيْرَ أَنَّ حَمَّادًا لَيْسَ فِي حَدِيثِهِ: فَكَانَ الْهَدْيُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَذَوِي الْيَسَارَةِ، ثُمَّ أَهَلُّوا حِينَ رَاحُوا، وَلَا قَوْلُهَا: وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ أَنْعَسُ، فَيُصِيبُ وَجْهِي مُؤْخِرَةَ الرَّحْلِ. حماد (بن سلمہ) نے عبدالرحمان سے حدیث بیان کی انہوں نے اپنے والد (قاسم) سے انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی انہوں نے کہا: ہم نے حج کا تلبیہ پکارا جب ہم سرف مقام پر تھے میرے ایام شروع ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم (میرے حجرے میں) داخل ہوئے تو میں رو رہی تھی (حماد نے) اس سے آگے ماجثون کی حدیث کی طرح بیان کیا مگر حماد کی حدیث میں یہ (الفاظ) نہیں: قربانی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر و عمر اور اصحاب ثروت رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی کے پاس تھی۔ پھر جب وہ چلے تو انہوں نے تلبیہ پکارا۔ اور نہ یہ قول (ان کی حدیث میں ہے) کہ میں نو عمر لڑکی تھی مجھے اونگھ آتی تو میرا سر (بار بار) پالان کی پچھلی لکڑی کو لگتا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، ہم نے حج کا تلبیہ کہا، حتی کہ جب ہم سرف جگہ پر پہنچے تو مجھے حیض آنے لگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے جبکہ میں رو رہی تھی، اس کے بعد اوپر والی ماجشون کے روایت کے مطابق ہے، ہاں اتنی بات حماد کی اس روایت میں یہ نہیں ہے کہ ہدی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور صاحب ثروت حضرات کے پاس تھی، پھر جب متمتع منیٰ کو چلے تو انہوں نے احرام باندھا اور نہ ہی اس میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ قول ہے، میں کم عمر لڑکی تھی، میں اونگھنے لگتی تو میرا چہرہ پالان کی پچھلی لکڑی کو لگتا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مالک نے عبدالرحمان بن قاسم سے انہوں نے اپنے والد (قاسم) سے انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیلا حج (افراد) کیا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج مفرد کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

وحدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا إسحاق بن سليمان ، عن افلح بن حميد ، عن القاسم ، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم مهلين بالحج في اشهر الحج وفي حرم الحج وليالي الحج، حتى نزلنا بسرف فخرج إلى اصحابه، فقال: " من لم يكن معه منكم هدي، فاحب ان يجعلها عمرة فليفعل، ومن كان معه هدي فلا "، فمنهم الآخذ بها والتارك لها ممن لم يكن معه هدي، فاما رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان معه الهدي ومع رجال من اصحابه لهم قوة، فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا ابكي، فقال: " ما يبكيك "، قلت سمعت كلامك مع اصحابك، فسمعت بالعمرة، قال: " وما لك؟ "، قلت: لا اصلي، قال ": " فلا يضرك فكوني في حجك، فعسى الله ان يرزقكيها، وإنما انت من بنات آدم، كتب الله عليك ما كتب عليهن "، قالت: فخرجت في حجتي حتى نزلنا منى فتطهرت، ثم طفنا بالبيت، ونزل رسول الله صلى الله عليه وسلم المحصب، فدعا عبد الرحمن بن ابي بكر، فقال: " اخرج باختك من الحرم فلتهل بعمرة، ثم لتطف بالبيت فإني انتظركما ها هنا "، قالت: فخرجنا فاهللت، ثم طفت بالبيت وبالصفا والمروة، فجئنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في منزله من جوف الليل، فقال: " هل فرغت؟ "، قلت: نعم، فآذن في اصحابه بالرحيل، فخرج فمر بالبيت فطاف به قبل صلاة الصبح ثم خرج إلى المدينة.وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَفْلَحَ بْنِ حُمَيْدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ وَفِي حُرُمِ الْحَجِّ وَلَيَالِي الْحَجِّ، حَتَّى نَزَلْنَا بِسَرِفَ فَخَرَجَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: " مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ مِنْكُمْ هَدْيٌ، فَأَحَبَّ أَنْ يَجْعَلَهَا عُمْرَةً فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلَا "، فَمِنْهُمُ الْآخِذُ بِهَا وَالتَّارِكُ لَهَا مِمَّنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ، فَأَمَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ وَمَعَ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِهِ لَهُمْ قُوَّةٌ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ: " مَا يُبْكِيكِ "، قُلْتُ سَمِعْتُ كَلَامَكَ مَعَ أَصْحَابِكَ، فَسَمِعْتُ بِالْعُمْرَةِ، قَالَ: " وَمَا لَكِ؟ "، قُلْتُ: لَا أُصَلِّي، قَالَ ": " فَلَا يَضُرُّكِ فَكُونِي فِي حَجِّكِ، فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَرْزُقَكِيهَا، وَإِنَّمَا أَنْتِ مِنْ بَنَاتِ آدَمَ، كَتَبَ اللَّهُ عَلَيْكِ مَا كَتَبَ عَلَيْهِنَّ "، قَالَتْ: فَخَرَجْتُ فِي حَجَّتِي حَتَّى نَزَلْنَا مِنًى فَتَطَهَّرْتُ، ثُمَّ طُفْنَا بِالْبَيْتِ، وَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُحَصَّبَ، فَدَعَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: " اخْرُجْ بِأُخْتِكَ مِنَ الْحَرَمِ فَلْتُهِلَّ بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ لِتَطُفْ بِالْبَيْتِ فَإِنِّي أَنْتَظِرُكُمَا هَا هُنَا "، قَالَتْ: فَخَرَجْنَا فَأَهْلَلْتُ، ثُمَّ طُفْتُ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَجِئْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي مَنْزِلِهِ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ، فَقَالَ: " هَلْ فَرَغْتِ؟ "، قُلْتُ: نَعَمْ، فَآذَنَ فِي أَصْحَابِهِ بِالرَّحِيلِ، فَخَرَجَ فَمَرَّ بِالْبَيْتِ فَطَافَ بِهِ قَبْلَ صَلَاةِ الصُّبْحِ ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الْمَدِينَةِ. افلح بن حمید نے قاسم سے انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی انہوں نے کہا: ہم حج کا تلبیہ کہتے ہوئے حج کے مہینوں میں حج کی حرمتوں (پابندیوں) میں اور حج کے ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں روانہ ہوئے حتیٰ کہ سرف کے مقام پر اترے۔ (وہاں پہنچ کر) آپ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: ”تم میں سے جس کے ہمراہ قربانی نہیں ہے۔ اور وہ اپنے حج کو عمرے میں بدلنا چاہتا ہے تو ایسا کرلے اور جس کے ساتھ قربانی کے جانور ہیں وہ (ایسا) نہ کرے۔“ ان میں سے کچھ نے جن کے پاس قربانی نہیں تھی اس (عمرے) کو اختیار کرلیا اور کچھ لوگوں نے رہنے دیا۔ البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور آپ کے ساتھ بعض صاحب استطاعت صحابہ کے ساتھ قربانیاں تھیں۔ پھر آپ میرے پاس تشریف لائے تو میں رو رہی تھی۔ آپ نے فرمایا: ”کیوں روتی ہو؟“ میں نے جواب دیا میں نے آپ کی آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ گفتگو سنی ہے اور عمرے کے متعلق بھی سن لیا ہے میں عمرے سے روک دی گئی ہوں۔ آپ نے پوچھا: (کیوں) تمہیں کیا ہے؟ میں نے جواب دیا: میں نماز ادا نہیں کرسکتی۔ آپ نے فرمایا: ”یہ (ایام عمرے حج میں) تمہارے لیے نقصان دہ نہیں تم اپنے حج میں (لگی) رہو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں یہ (عمرے کا) اجر بھی دے گا تم آدم علیہ السلام کی بیٹیوں میں سے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بھی وہی کچھ لکھ دیا ہے جو ان کی قسمت میں لکھا ہے۔“ کہا (پھر) میں احرام ہی کی حالت میں) اپنے حج کے سفر میں نکلی حتیٰ کہ ہم منیٰ میں جا اترے اور (تب) میں ایام سے پاک ہوگئی پھر ہم سب نے بیت اللہ کا طواف (افاضہ) کیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی محصب میں پڑاؤ ڈالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ (میرے بھائی) کو بلایا اور ان سے) فرمایا: ”اپنی بہن کو حرم سے باہر (تنعیم) لے جاؤ تاکہ یہ (احرام باندھ کر) عمرے کا تلبیہ کہے اور (عمرے کے لیے بیت اللہ (اور صفا مروہ) کا طواف کرلے۔ میں (تمہاری واپسی تک) تم دونوں کا یہیں انتظار کروں گا۔“ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: ہم نکل پڑے میں نے (احرام باندھ کر) بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف کیا۔ ہم لوٹ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آدھی رات کے وقت اپنی منزل ہی پر تھے۔ آپ نے (مجھ سے) پوچھا: ”کیا تم (عمرے سے) فارغ ہوگئی ہو؟“ میں نے کہا جی ہاں پھر آپ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں کوچ کے اعلان کا حکم دیا۔ آپ (وہاں سے) نکلے بیت اللہ کے پاس سے گزرے اور فجر کی نماز سے پہلے اس کا طواف (وداع) کیا پھر مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے مہینوں میں حج کے اوقات میں اور حج کی راتوں میں، حج کا احرام باندھ کر نکلے، حتی کہ ہم نے مقام سرف پر پڑاؤ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے پاس گئے اور فرمایا: ”تم میں سے جس کے پاس ہدی نہیں ہے، وہ اس حج کے احرام کو عمرہ کا احرام بنانا چاہے، تو وہ ایسا کر لے اور جس کے پاس ہدی ہے، وہ ایسا نہیں کر سکتا۔“ تو بعض نے جن کے پاس ہدی نہ تھی، اس کو عمرہ بنا لیا اور بعض نے رہنے دیا، رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب استطاعت کچھ ساتھیوں کے پاس ہدی تھی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میں رو رہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیوں روتی ہو؟“ میں نے عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے جو گفتگو فرمائی ہے، میں نے سن لی ہے، میں نے عمرہ کے بارے میں بھی سن لیا ہے (اور میں عمرہ نہیں کر سکتی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہیں کیا ہوا؟“ میں نے عرض کیا، میں نماز نہیں پڑھ سکتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو یہ تیرے لیے نقصان کا باعث نہیں، حج کا احرام برقرار رکھو، امید ہے، اللہ تمہیں عمرہ کی توفیق بھی دے گا تو بھی تو آدم علیہ السلام کی بیٹیوں سے ہے، اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے وہی لکھا ہے جو ان کے لیے لکھا ہے۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، میں اپنے حج کے احرام میں رہی، حتی کہ ہم نے منیٰ میں پڑاؤ کیا تو میں نے غسل کیا، پھر بیت اللہ کا طواف کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وادی مَحصَب میں اترے تو عبدالرحمٰن بن ابی بکر کو بلوایا اور فرمایا: ”اپنی بہن کو حرم سے باہر لے جاؤ، تاکہ، وہ عمرہ کا احرام باندھے، پھر بیت اللہ کا طواف کرے اور میں تم دونوں کا یہیں انتظار کروں گا۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ہم حرم سے نکلے اور میں نے احرام باندھ کر بیت اللہ کا طواف کیا، صفا اور مروہ کے چکر لگائے اور ہم آدھی رات واپس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ پر ہی تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا فارغ ہو گئی ہو؟“ میں نے کہا، جی ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھیوں میں کوچ کا اعلان کر دیا، وہاں سے چل کر بیت اللہ سے گزرے اور صبح کی نماز سے پہلے اس کا طواف کیا، پھر مدینہ کی طرف رخت سفر باندھ لیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبید اللہ بن عمر نے قاسم بن محمد سے حدیث بیان کی، انہوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے فرمایا (جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لیے نکلے تھے تو) ہم میں سے بعض نے اکیلے حج (افراد) کا تلبیہ کہا بعض نے ایک ساتھ دونوں (قران) اور بعض نے حج تمتع کا ارادہ کیا۔ حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ہم میں سے بعض نے حج مفرد کا احرام باندھا، بعض نے قران کیا اور بعض نے تمتع کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (صرف) حج کے لیے آئیں تھیں۔ قاسم بن محمد بیان کرتے ہیں، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حج کا احرام باندھ کر آئی تھیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

وحدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب ، حدثنا سليمان يعني ابن بلال ، عن يحيى وهو ابن سعيد ، عن عمرة ، قالت: سمعت عائشة رضي الله عنها تقول: " خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لخمس بقين من ذي القعدة، ولا نرى إلا انه الحج، حتى إذا دنونا من مكة، امر رسول الله صلى الله عليه وسلم من لم يكن معه هدي، إذا طاف بالبيت وبين الصفا والمروة ان يحل، قالت عائشة رضي الله عنها: فدخل علينا يوم النحر بلحم بقر، فقلت: ما هذا فقيل: ذبح رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ازواجه "، قال يحيى: فذكرت هذا الحديث للقاسم بن محمد، فقال: اتتك والله بالحديث على وجهه،وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، عَنْ يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عَمْرَةَ ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَمْسٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْقَعْدَةِ، وَلَا نَرَى إِلَّا أَنَّهُ الْحَجُّ، حَتَّى إِذَا دَنَوْنَا مِنْ مَكَّةَ، أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ، إِذَا طَافَ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ أَنْ يَحِلَّ، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: فَدُخِلَ عَلَيْنَا يَوْمَ النَّحْرِ بِلَحْمِ بَقَرٍ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا فَقِيلَ: ذَبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَزْوَاجِهِ "، قَالَ يَحْيَى: فَذَكَرْتُ هَذَا الْحَدِيثَ لِلْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، فَقَالَ: أَتَتْكَ وَاللَّهِ بِالْحَدِيثِ عَلَى وَجْهِهِ، یحییٰ بن سعید نے عمرہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، وہ فرما رہی تھیں: ذوالقعدہ کے پانچ دن باقی تھے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج کے لیے) نکلے، ہمارے پیش نظر صرف حج تھا۔ جب ہم مکہ کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا: ”جس کے ہمراہ قربانی نہیں ہے وہ جب بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کرلے تو احرام کھول دے۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: عید کے دن ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا۔ میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ بتایا گیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی طرف سے (یہ گائے) ذبح کی ہے یحییٰ نے کہا: میں نے یہ حدیث قاسم بن محمد بن قاسم کے سامنے پیش کی تو (انہوں نے) فرمایا: اللہ کی قسم اس (عمرہ) نے تمہیں یہ حدیث بالکل صحیح صورت میں پہنچائی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم ذوالقعدہ کے پانچ دن رہتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور ہمارا خیال یہی تھا کہ حج کرنا ہے، حتی کہ جب ہم مکہ کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا: ”جس کے پاس ہدی نہیں ہے، وہ بیت اللہ کا طواف اور صفا اور مروہ کی سعی کرنے کے بعد احرام کھول دے۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نحر کے دن ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے پوچھا، یہ کیا ہے؟ تو بتایا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے قربانی کی ہے، یحییٰ کہتے ہیں، میں نے یہ حدیث قاسم بن محمد کے سامنے بیان کی تو انہوں نے کہا، اللہ کی قسم! اس نے (یعنی عمرہ نے) تمہیں حدیث صحیح طور پر بتائی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبدالوہاب اور سفیان بن عیینہ نے یحییٰ سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

ابراہیم نے اسود اور قاسم سے ان دونوں نے ام المؤمنین رضی اللہ عنہا سے روایت کی، ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے عرض کی: اے رسول اللہ! لوگ حج اور عمرہ دودو مناسک ادا کر کے (اپنے گھروں کو) لوٹیں گے اور میں صرف ایک منسک (حج) کر کے لوٹوں گی؟ آپ نے فرمایا: ”تم ذرا انتظار کرو! جب تم پاک ہو جاؤ تو تنعیم (کی طرف) چلی جانا اور وہاں سے (احرام باندھ کر عمرے کا) تلبیہ پکارنا پھر فلاں مقام پر ہم سے آملنا۔“ ابراہیم نے کہا: میرا خیال ہے آپ نے فرمایا تھا: کل۔ اور (فرمایا) لیکن وہ (تمہارے عمرے کا اجر) تمہاری مشقت یا فرمایا: خرچ ہی کے مطابق ہو گا۔ حضرت ام المومنین (عائشہ) رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگ دو (مستقل) عبادتیں کر کے واپس جائیں گے اور میں ایک عبادت (مستقل طور پر) کر کے لوٹوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انتظار کرو، جب تم پاک ہو جاؤ تو تنعیم کی طرف نکل جانا اور وہاں سے احرام باندھ لینا اور پھر ہمیں فلاں فلاں جگہ کے قریب آ ملنا۔“ (راوی کہتے ہیں، میرا خیال ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کل) لیکن اس کا ثواب تمہاری مشقت یا فرمایا تھا تمہارے خرچ کے مطابق ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابن ابی عدی نے ابن عون سے حدیث بیان کی، انہوں نے قاسم اور ابراہیم سے روایت کی (ابن عون نے کہا:) میں ان میں سے ایک کی حدیث دوسرے کی حدیث سے الگ نہیں کر سکتا۔ ام المؤمنین (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! لوگ دو منسک (حج اور عمرہ) کر کے لوٹیں۔ اور آگے (اسی طرح) حدیث بیان کی۔ ابن عون ام قاسم اور ابراہیم سے روایت کرتے ہیں، لیکن دونوں کی حدیث میں امتیاز نہیں کر سکتے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگ دو عبادتیں کر کے واپس جائیں گے، اس کے بعد مذکورہ بالا روایت بیان کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدثنا زهير بن حرب ، وإسحاق بن إبراهيم ، قال زهير حدثنا، قال إسحاق: اخبرنا جرير ، عن منصور ، عن إبراهيم ، عن الاسود ، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا نرى إلا انه الحج، فلما قدمنا مكة تطوفنا بالبيت، فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم من لم يكن ساق الهدي ان يحل، قالت: فحل من لم يكن ساق الهدي، ونساؤه لم يسقن الهدي فاحللن، قالت عائشة: فحضت فلم اطف بالبيت، فلما كانت ليلة الحصبة، قالت: قلت: يا رسول الله يرجع الناس بعمرة وحجة، وارجع انا بحجة، قال: " او ما كنت طفت ليالي قدمنا مكة؟ "، قالت: قلت: لا، قال: " فاذهبي مع اخيك إلى التنعيم فاهلي بعمرة، ثم موعدك مكان كذا وكذا "، قالت صفية: ما اراني إلا حابستكم، قال: " عقرى حلقى او ما كنت طفت يوم النحر "، قالت: بلى، قال: " لا باس انفري "، قالت عائشة: فلقيني رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مصعد من مكة وانا منهبطة عليها، او انا مصعدة وهو منهبط منها، وقال إسحاق: متهبطة ومتهبط،حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا، قَالَ إِسْحَاق: أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نَرَى إِلَّا أَنَّهُ الْحَجُّ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ تَطَوَّفْنَا بِالْبَيْتِ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ أَنْ يَحِلَّ، قَالَتْ: فَحَلَّ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ، وَنِسَاؤُهُ لَمْ يَسُقْنَ الْهَدْيَ فَأَحْلَلْنَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَحِضْتُ فَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ، فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ يَرْجِعُ النَّاسُ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ، وَأَرْجِعُ أَنَا بِحَجَّةٍ، قَالَ: " أَوْ مَا كُنْتِ طُفْتِ لَيَالِيَ قَدِمْنَا مَكَّةَ؟ "، قَالَتْ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: " فَاذْهَبِي مَعَ أَخِيكِ إِلَى التَّنْعِيمِ فَأَهِلِّي بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ مَوْعِدُكِ مَكَانَ كَذَا وَكَذَا "، قَالَتْ صَفِيَّةُ: مَا أُرَانِي إِلَّا حَابِسَتَكُمْ، قَالَ: " عَقْرَى حَلْقَى أَوْ مَا كُنْتِ طُفْتِ يَوْمَ النَّحْرِ "، قَالَتْ: بَلَى، قَالَ: " لَا بَأْسَ انْفِرِي "، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُصْعِدٌ مِنْ مَكَّةَ وَأَنَا مُنْهَبِطَةٌ عَلَيْهَا، أَوْ أَنَا مُصْعِدَةٌ وَهُوَ مُنْهَبِطٌ مِنْهَا، وَقَالَ إِسْحَاق: مُتَهَبِّطَةٌ وَمُتَهَبِّطٌ، منصور نے ابراہیم سے، انہوں نے اسود سے انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور ہم اس کو حج ہی سمجھتے تھے۔ جب ہم مکہ پہنچے اور بیت اللہ کا طواف کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا: جو اپنے ساتھ قربانی نہیں لایا وہ احرام کھول دے۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:) جتنے لوگ بھی قربانی ساتھ نہیں لائے تھے، انہوں نے احرام ختم کر دیا۔ آپ کی ازواج بھی اپنے ساتھ قربانیاں نہیں لائیں تھیں تو وہ بھی احرام سے باہر آگئیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: (لیکن) میرے ایام شروع ہو گئے تھے اور میں بیت اللہ کا طواف نہ کر سکی جب حصبہ کی رات آئی، تو میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! لوگ حج اور عمرہ کر کے لوٹیں اور میں صرف حج کر کے لوٹوں گی؟ آپ نے فرمایا: ”جن راتوں (تاریخوں) میں ہم مکہ آئے تھے کیا تم نے طواف نہیں کیا تھا؟“ میں نے کہا: جی نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تو پھر اپنے بھائی (عبدالرحمان رضی اللہ عنہ) کے ساتھ مقام تنعیم تک چلی جاؤ اور وہاں سے (عمرے کا احرام باندھ کر) عمرے کا تلبیہ پکارو (اور عمرہ کر لو) پھر تم فلاں مقام پر آملنا۔“ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: میں اپنے بارے میں سمجھتی ہوں کہ میں (بھی) آپ کو روکنے والی ہوں گی۔ آپ نے فرمایا: ”(اپنی قوم کی زبان میں) عقریٰ حلقیٰ (بے اولاد، بے بال، یہود حائضہ عورت کے لیے یہی لفظ بولتے تھے) کیا تم نے عید کے دن طواف نہیں کیا تھا؟“ کہا: کیوں نہیں (کیا تھا!) آپ نے فرمایا: ”(تو پھر) کوئی بات نہیں، اب چل پڑو۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: (دوسری صبح) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے (اس وقت) ملے جب آپ مکہ سے چڑھائی پر آ رہے تھے اور میں مکہ کی سمت اتر رہی تھی۔ یا میں چڑھائی پر جا رہی تھی اور آپ اس سے اتر رہے تھے (واپس آرہے تھے)۔ اور اسحاق نے متہبطہ (اترنے والی) اور متہبط (اترنے والے) کے الفاظ کہے۔ (مفہوم وہی ہے) حضرت عائشہ رضی اللہ تعلیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے اور ہمارا تصور یہی تھا کہ ہم حج کریں گے، جب ہم مکہ پہنچے، ہم نے بیت اللہ کا طواف کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی لوگوں کو جو ہدی ساتھ نہیں لائے تھے احرام کھول دینے کا حکم دے دیا، وہ بیان کرتی ہیں کہ جو لوگ ہدی ساتھ نہیں لائے تھے، انہوں نے احرام کھول دیا، (حلال ہو گئے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہدی نہیں لائی تھیں، اس لیے وہ بھی حلال ہو گئیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، مجھے حیض شروع ہو گیا، اس لیے میں بیت اللہ کا طواف نہ کر سکی تو جب مَحصَب کی طرف لوٹ آئی، میں نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگ عمرہ اور حج کر کے لوٹیں گے اور میں صرف حج کر کے لوٹوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا جن راتوں ہم مکہ پہنچے تھے تو نے طواف نہیں کیا تھا؟“ میں نے عرض کیا، جی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے بھائی کے ساتھ مقام تنعیم کے پاس جاؤ اور عمرہ کا احرام باندھ لو، پھر فلاں فلاں جگہ آ کر ہم سے مل جانا۔“ حضرت صفیہ رضی اللہ تعلیٰ عنہا نے عرض کیا، میرا خیال ہے، میں آپ حضرات کو (جانے سے) روک لوں گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زخمی، سرمنڈی، کیا تم نے قربانی کے دن طواف نہیں کیا تھا؟“ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا، کیوں نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی مضائقہ نہیں، چلو۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اس حال میں ملے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے فراز (بلندی) کو چڑھ رہے تھے اور میں، مکہ کی طرف اتر رہی تھی، یا میں چڑھ رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف اتر رہے تھے، اسحاق نے مُنْهَبطَةٌ اور مُنهَبط کی جگہ مَتَهَبّطَةٌ اور مُتَهَبِّط کہا، معنی ایک ہی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
اعمش نے ابراہیم سے، انہوں نے اسود سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تلبیہ کہتے ہوئے نکلے ہم حج یا عمرے کا ذکر نہیں کر رہے تھے۔ اور آگے (اعمش نے) منصور کے ہم معنی ہی حدیث بیان کی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ، تلبیہ کہتے ہوئے چل پڑے، حج یا عمرہ کی تعیین نہیں کر رہے تھے، آ گے منصور کی مذکورہ بالا روایت کی طرح ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، ومحمد بن المثنى ، وابن بشار جميعا، عن غندر ، قال ابن المثنى: حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، عن علي بن الحسين ، عن ذكوان مولى عائشة، عن عائشة رضي الله عنها انها قالت: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم لاربع مضين من ذي الحجة او خمس، فدخل علي وهو غضبان، فقلت: من اغضبك يا رسول الله ادخله الله النار؟، قال: " اوما شعرت اني امرت الناس بامر، فإذا هم يترددون "، قال الحكم: كانهم يترددون، احسب، " ولو اني استقبلت من امري ما استدبرت، ما سقت الهدي معي حتى اشتريه، ثم احل كما حلوا "،حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ جَمِيعًا، عَنْ غُنْدَرٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ، عَنْ ذَكْوَانَ مَوْلَى عَائِشَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَرْبَعٍ مَضَيْنَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ أَوْ خَمْسٍ، فَدَخَلَ عَلَيَّ وَهُوَ غَضْبَانُ، فَقُلْتُ: مَنْ أَغْضَبَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَدْخَلَهُ اللَّهُ النَّارَ؟، قَالَ: " أَوَمَا شَعَرْتِ أَنِّي أَمَرْتُ النَّاسَ بِأَمْرٍ، فَإِذَا هُمْ يَتَرَدَّدُونَ "، قَالَ الْحَكَمُ: كَأَنَّهُمْ يَتَرَدَّدُونَ، أَحْسِبُ، " وَلَوْ أَنِّي اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ، مَا سُقْتُ الْهَدْيَ مَعِي حَتَّى أَشْتَرِيَهُ، ثُمَّ أَحِلُّ كَمَا حَلُّوا "، محمد بن جعفر (غندر) نے کہا: ہمیں شعبہ نے حکم سے حدیث بیان کی، انہوں نے (زین العابدین) علی بن حسین سے، انہوں نے ذاکون مولیٰ عائشہ رضی اللہ عنہا سے انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے فرمایا: ذوالحجہ کے چار یا پانچ دن گزر چکے تھے کہ آپ میرے پاس (خیمے میں) تشریف لائے، آپ غصے کی حالت میں تھے، میں نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! آپ کو کس نے غصہ دلایا؟ اللہ اسے آگ میں داخل کرے۔ آپ نے جواب دیا: ”کیا تم نہیں جانتیں! میں نے لوگوں کو ایک حکم دیا (کہ جو قربانی ساتھ نہیں لائے، وہ عمرے کے بعد احرام کھول دیں) مگر وہ اس پر عمل کرنے میں پس و پیش کر رہے ہیں۔“ حکم نے کہا: میرا خیال ہے (کہ میرے استاد علی بن حسین نے) ”ایسا لگتا ہے وہ پس و پیش کر رہے ہیں۔“ کہا۔ اگر اپنے اس معاملے میں وہ بات پہلے میرے سامنے آجاتی جو بعد میں آئی تو میں اپنے ساتھ قربانی نہ لاتا حتیٰ کہ میں اسے (یہاں آکر) خریدتا پھر میں ویسے احرام سے باہر آجاتا جیسے یہ سب (صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین عمرے کے بعد) آگئے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چار یا پانچ ذوالحجہ کو میرے پاس غصہ کی حالت میں تشریف لائے تو میں نے پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی نے ناراض کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں ڈالے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں پتہ نہیں چلا، میں نے لوگوں کو ایک کام کا (احرام کھولنے کا) حکم دیا ہے تو وہ اس کی تعمیل میں پس و پیش کر رہے ہیں، (حکم کہتے ہیں، میرے خیال میں آپ نے تردد کے معنی پر دلالت کرنے والا لفظ بولا تھا)، اگر مجھے جس چیز کا بعد میں علم ہوا ہے، مجھے اس کا پہلے علم ہو جاتا تو میں ہدی ساتھ نہ لاتا، حتی کہ اس کو یہاں خرید لیتا، پھر میں بھی ان کی طرح حلال ہو جاتا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبید اللہ بن معاذ نے کہا: مجھے میرے والد نے شعبہ سے باقی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ حدیث بیان کی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کی چار یا پانچ راتیں گزرنے کے بعد مکہ تشریف لائے۔ آگے (عبید اللہ بن معاذ نے) غندر کی روایت کے مانند ہی حدیث بیان کی انہوں نے پس و پیش کرنے کے حوالے سے حکم کا شک ذکر نہیں کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چار یا پانچ ذوالحجہ کو مکہ پہنچے تھے، آ گے منذر کی مذکورہ بالا حدیث کی طرح ہے اور اس میں يُرَدُّوْنَ پس و پیش کر رہے ہیں کے لفظ کے بارے میں حَکَم کے شک کا ذکر نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني محمد بن حاتم ، حدثنا بهز ، حدثنا وهيب ، حدثنا عبد الله بن طاوس ، عن ابيه ، عن عائشة رضي الله عنها، انها اهلت بعمرة فقدمت ولم تطف بالبيت حتى حاضت فنسكت المناسك كلها وقد اهلت بالحج، فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم يوم النفر: " يسعك طوافك لحجك وعمرتك "، فابت، فبعث بها مع عبد الرحمن إلى التنعيم، فاعتمرت بعد الحج.حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا أَهَلَّتْ بِعُمْرَةٍ فَقَدِمَتْ وَلَمْ تَطُفْ بِالْبَيْتِ حَتَّى حَاضَتْ فَنَسَكَتِ الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا وَقَدْ أَهَلَّتْ بِالْحَجِّ، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّفْرِ: " يَسَعُكِ طَوَافُكِ لِحَجِّكِ وَعُمْرَتِكِ "، فَأَبَتْ، فَبَعَثَ بِهَا مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِلَى التَّنْعِيمِ، فَاعْتَمَرَتْ بَعْدَ الْحَجِّ. طاوس نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ انہوں نے عمرے کا تلبیہ پکارا تھا مکہ پہنچیں، ابھی بیت اللہ کا طواف نہیں کیا تھا کہ ایام شروع ہو گئے، انہوں نے حج کا تلبیہ کہا اور تمام مناسک (حج) ادا کیے۔ واپسی کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے (مخاطب ہو کر) فرمایا: ”تمہارا طواف تمہارے حج اور عمرے (دونوں) کے لیے کافی ہے۔ (اب تمہیں مزید عمرے کی ضرورت نہیں)“ مگر وہ نہ مانیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (ان کے بھائی) عبدالرحمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تنعیم بھیجا اور انہوں نے حج کے بعد (ایک اور) عمرہ ادا کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے عمرہ کا احرام باندھا تھا، وہ مکہ آئیں تو بیت اللہ کے طواف سے پہلے ہی حیض شروع ہو گیا، انہوں نے تمام احکام ادا کیے، کیونکہ انہوں نے حج کا احرام باندھ لیا تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کوچ کے دن فرمایا: ”تیرا یہ طواف تیرے حج اور عمرہ کے لیے کافی ہے۔“ انہوں نے اس پر اکتفاء کرنے سے انکار کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ عبدالرحمٰن کو تنعیم بھیجا تو انہوں نے حج کے بعد عمرہ کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مجاہد نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ انہیں مقام سرف سے ایام شروع ہوئے پھر وہ عرفہ میں جا کر پاک ہوئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”تمہاری طرف سے تمہارا صفا مروہ کا طواف تمہارے حج اور عمرے (دونوں) کے لیے کافی ہے۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ انہیں حیض مقام سرف میں شروع ہوا اور وہ اس سے عرفہ کے دن پاک ہوئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”تیرا صفا اور مروہ کا طواف تمہیں تمہارے حج اور عمرہ کے لیے کفایت کرے گا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

وحدثنا يحيى بن حبيب الحارثي ، حدثنا خالد بن الحارث ، حدثنا قرة ، حدثنا عبد الحميد بن جبير بن شيبة ، حدثتنا صفية بنت شيبة ، قالت: قالت عائشة رضي الله عنها: " يا رسول الله ايرجع الناس باجرين وارجع باجر؟ فامر عبد الرحمن بن ابي بكر ان ينطلق بها إلى التنعيم، قالت: فاردفني خلفه على جمل له، قالت: فجعلت ارفع خماري احسره عن عنقي، فيضرب رجلي بعلة الراحلة، قلت: له وهل ترى من احد؟، قالت: فاهللت بعمرة، ثم اقبلنا حتى انتهينا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بالحصبة ".وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ شَيْبَةَ ، حَدَّثَتْنَا صَفِيَّةُ بِنْتُ شَيْبَةَ ، قَالَتْ: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: " يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيَرْجِعُ النَّاسُ بِأَجْرَيْنِ وَأَرْجِعُ بِأَجْرٍ؟ فَأَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ أَنْ يَنْطَلِقَ بِهَا إِلَى التَّنْعِيمِ، قَالَتْ: فَأَرْدَفَنِي خَلْفَهُ عَلَى جَمَلٍ لَهُ، قَالَتْ: فَجَعَلْتُ أَرْفَعُ خِمَارِي أَحْسُرُهُ عَنْ عُنُقِي، فَيَضْرِبُ رِجْلِي بِعِلَّةِ الرَّاحِلَةِ، قُلْتُ: لَهُ وَهَلْ تَرَى مِنْ أَحَدٍ؟، قَالَتْ: فَأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ أَقْبَلْنَا حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْحَصْبَةِ ". صفیہ بنت شیبہ نے بیان کیا، کہا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! لوگ تو وہ (عملوں کا) ثواب لے کر لوٹیں گے اور میں (صرف) ایک (عمل کا) ثواب لے کر لوٹوں؟ تو (عائشہ رضی اللہ عنہا کی بات سن کر) آپ نے عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ انہیں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو) تنعیم تک لے جائے۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:) چنانچہ عبدالرحمان رضی اللہ عنہ نے اپنے اونٹ پر مجھے اپنے پیچھے سوار کر لیا (راستے میں) اپنی اوڑھنی کو اپنی گردن سے سر ڈھانپنے کے لیے (بار بار) اسے اوپر اٹھاتی تو (عبدالرحمان رضی اللہ عنہ) سواری کو مارنے کے بہانے میرے پاؤں پر مارتے (کہا اوڑھنی کیوں اٹھا رہی ہیں؟) میں ان سے کہتی: آپ یہاں کسی (اجنبی) کو دیکھ رہے ہیں؟ (جو مجھے ایسا کرتا ہوا دیکھ لے گا) فرماتی ہیں: میں نے (وہاں سے عمرے کا احرام باندھ کر) تلبیہ پکارا (اور عمرہ کیا) پھر ہم (واپس آئے حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے۔ آپ (اس وقت) مقام حصبہ پر تھے۔ حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا لوگ دو ثواب لے کر لوٹیں گے اور میں ایک اجر لے کر واپس جاؤں گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ اس کو لے کر تنعیم جاؤ، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، تو اس نے مجھے اپنے اونٹ پر پیچھے سوار کر لیا تو میں اپنی گردن کو ننگی کرنے کے لیے اپنے دوپٹے کو اٹھانے لگی تو وہ سواری کے بہانے میرے پاؤں پر مارتے (کہ پردہ کیوں نہیں کرتی ہو) میں نے اس سے کہا، تجھے کوئی نظر آ رہا ہے (جس سے پردہ کروں) میں نے عمرہ کا احرام باندھا، پھر ہم آ گے بڑھے حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مَحصَب میں پہنچ گئے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عمرو بن اوس نے خبر دی کہ عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ساتھ لے لیں اور انہیں مقام تنعیم سے عمرہ کروائیں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پیچھے سوار کر کے، اسے تنعیم سے عمرہ کروائے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدثنا قتيبة بن سعيد ، ومحمد بن رمح جميعا، عن الليث بن سعد ، قال قتيبة: حدثنا ليث، عن ابي الزبير ، عن جابر رضي الله عنه، انه قال: اقبلنا مهلين مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بحج مفرد، واقبلت عائشة رضي الله عنها بعمرة، حتى إذا كنا بسرف عركت، حتى إذا قدمنا طفنا بالكعبة والصفا والمروة، فامرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يحل منا من لم يكن معه هدي، قال: فقلنا: حل ماذا؟، قال: " الحل كله "، فواقعنا النساء وتطيبنا بالطيب ولبسنا ثيابنا، وليس بيننا وبين عرفة إلا اربع ليال، ثم اهللنا يوم التروية، ثم دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم على عائشة رضي الله عنها فوجدها تبكي، فقال: " ما شانك؟ "، قالت: شاني اني قد حضت، وقد حل الناس ولم احلل، ولم اطف بالبيت والناس يذهبون إلى الحج الآن، فقال: " إن هذا امر كتبه الله على بنات آدم فاغتسلي، ثم اهلي بالحج "، ففعلت ووقفت المواقف، حتى إذا طهرت طافت بالكعبة والصفا والمروة ثم قال: " قد حللت من حجك وعمرتك جميعا "، فقالت: يا رسول الله إني اجد في نفسي اني لم اطف بالبيت حتى حججت، قال: " فاذهب بها يا عبد الرحمن فاعمرها من التنعيم "، وذلك ليلة الحصبة،حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ جميعا، عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ قُتَيْبَةُ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: أَقْبَلْنَا مُهِلِّينَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَجٍّ مُفْرَدٍ، وَأَقْبَلَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا بِعُمْرَةٍ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِسَرِفَ عَرَكَتْ، حَتَّى إِذَا قَدِمْنَا طُفْنَا بِالْكَعْبَةِ وَالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَحِلَّ مِنَّا مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ، قَالَ: فَقُلْنَا: حِلُّ مَاذَا؟، قَالَ: " الْحِلُّ كُلُّهُ "، فَوَاقَعْنَا النِّسَاءَ وَتَطَيَّبْنَا بِالطِّيبِ وَلَبِسْنَا ثِيَابَنَا، وَلَيْسَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عَرَفَةَ إِلَّا أَرْبَعُ لَيَالٍ، ثُمَّ أَهْلَلْنَا يَوْمَ التَّرْوِيَةِ، ثُمَّ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَوَجَدَهَا تَبْكِي، فَقَالَ: " مَا شَأْنُكِ؟ "، قَالَتْ: شَأْنِي أَنِّي قَدْ حِضْتُ، وَقَدْ حَلَّ النَّاسُ وَلَمْ أَحْلِلْ، وَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ وَالنَّاسُ يَذْهَبُونَ إِلَى الْحَجِّ الْآنَ، فَقَالَ: " إِنَّ هَذَا أَمْرٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ فَاغْتَسِلِي، ثُمَّ أَهِلِّي بِالْحَجِّ "، فَفَعَلَتْ وَوَقَفَتِ الْمَوَاقِفَ، حَتَّى إِذَا طَهَرَتْ طَافَتْ بِالْكَعْبَةِ وَالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ قَالَ: " قَدْ حَلَلْتِ مِنْ حَجِّكِ وَعُمْرَتِكِ جَمِيعًا "، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَجِدُ فِي نَفْسِي أَنِّي لَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ حَتَّى حَجَجْتُ، قَالَ: " فَاذْهَبْ بِهَا يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ فَأَعْمِرْهَا مِنَ التَّنْعِيمِ "، وَذَلِكَ لَيْلَةَ الْحَصْبَةِ، قتیبہ نے کہا: ہم سے لیث نے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوزبیر سے انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اکیلے حج (افراد) کا تلبیہ پکارتے ہوئے آئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا صرف عمرے کی نیت سے آئیں۔ جب ہم مقام سرف پہنچے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایام شروع ہو گئے حتیٰ کہ جب ہم مکہ آئے تو ہم نے کعبہ اور صفا مروہ کا طواف کر لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم میں سے جس کسی کے ہمراہ قربانی نہیں، وہ (احرام چھوڑ کر) حلت (عدم احرام کی حالت) اختیار کرلے۔ ہم نے پوچھا: کون سی حلت؟ آپ نے فرمایا: ”مکمل حلت (احرام کی تمام پابندیوں سے آزادی)۔“ تو پھر ہم اپنی عورتوں کے پاس گئے خوشبو لگائی اور (معمول کے) کپڑے پہن لیے۔ (اور اس وقت) ہمارے اور عرفہ (کو روانگی) کے درمیان چار راتیں باقی تھیں۔ پھر ہم نے ترویہ والے دن (آٹھ ذوالحجہ کو) تلبیہ پکارا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے خیمے میں داخل ہوئے تو انہیں روتا ہوا پایا۔ پوچھا: ”تمہارا کیا معاملہ ہے؟“ انہوں نے جواب دیا: میرا معاملہ یہ ہے کہ مجھے ایام شروع ہو گئے ہیں۔ لوگ حلال (احرام سے فارغ) ہو چکے ہیں اور میں ابھی نہیں ہوئی اور نہ میں نے ابھی بیت اللہ کا طواف کیا ہے لوگ اب حج کے لیے روانہ ہو رہے ہیں آپ نے فرمایا: ”(پریشان مت ہو) یہ (حیض) ایسا معاملہ ہے جو اللہ نے آدم علیہ السلام کی بیٹیوں کی قسم میں لکھ دیا ہے تم غسل کر لو اور حج کا (احرام باندھ کر) تلبیہ پکارو۔“ انہوں نے ایسا ہی کیا اور وقوف کے ہر مقام پر وقوف کیا (حاضری دی دعائیں کیں) اور جب پاک ہو گئیں تو (عرفہ کے دن) بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف کیا۔ پھر آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ”تم اپنے حج اور عمرے دونوں (مکمل کر کے ان کے احرام کی پابندیوں) سے آزاد ہو چکی ہو۔“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے دل میں (ہمیشہ) یہ کھٹکا رہے گا کہ میں حج کرنے تک بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکی۔ آپ نے فرمایا: ”اے عبدالرحمان! انہیں (لے جاؤ اور) تنعیم سے عمرہ کرا لاؤ۔“ اور یہ (منیٰ سے واپسی پر) حصبہ (میں قیام والی) رات کا واقعہ ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج مفرد کا احرام باندھ کر چلے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عمرہ کا احرام باندھ کر چلیں، حتی کہ جب ہم سرف مقام پر پہنچ گئے، انہیں حیض آنا شروع ہو گیا، حتی کہ جب ہم مکہ پہنچے، ہم نے بیت اللہ اور صفا اور مروہ کا طواف کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ جس کے پاس ہدی نہیں ہے، وہ احرام کھول دے تو ہم نے پوچھا، حلال ہونے سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مکمل حلت۔“ تو ہم بیویوں کے پاس گئے اور خوشبو لگائی اور اپنے کپڑے پہن لیے، ہمارے اور عرفہ کے درمیان چار دن باقی تھے، پھر ہم نے ترویہ کے دن (آٹھ ذوالحجہ کو) احرام باندھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئے تو انہیں روتے ہوئے پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”تمہیں کیا ہوا؟“ انہوں نے جواب دیا، میری حالت یہ ہے، میں حائضہ ہوں، لوگ احرام کھول چکے ہیں اور میں نے احرام نہیں کھولا اور نہ میں نے بیت اللہ کا طواف کیا ہے اور لوگ اب حج کے لیے جا رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ایسی چیز ہے جو اللہ نے آدم کی بیٹیوں کی فطرت میں رکھ دی ہے، تم غسل کر کے، حج کا احرام باندھ لو۔“ تو میں نے ایسے ہی کیا اور تمام مقامات پر وقوف کیا، (ٹھہری) حتی کہ جب پاک ہو گئی تو کعبہ اور صفا اور مروہ کا طواف کیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے حج اور عمرہ دونوں سے حلال ہو گئی ہو۔“ تو اس نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنے دل میں کھٹک محسوس کر رہی ہوں کہ میں حج سے پہلے بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکی، (حالانکہ میں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عبدالرحمٰن! اسے لے جاؤ اور اسے تنعیم سے عمرہ کرواؤ۔“ اور یہ مَحصَب کی رات کا واقعہ ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابن جریج نے خبر دی کہا: مجھے ابوزبیر نے خبر دی، انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو بیان کرتے سنا، کہہ رہے تھے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے خیمے میں داخل ہوئے تو وہ رو رہی تھیں۔ پھر (آخر تک) لیث کی روایت کردہ حدیث کے مانند روایت بیان کی، لیکن لیث کی حدیث میں اس سے پہلے کا جو حصہ ہے وہ بیان نہیں کیا۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئے، جبکہ وہ رو رہی تھیں، آ گے لیث کی مذکورہ بالا روایت کی طرح ہے، لیکن اس سے پہلے کا جو حصہ لیث نے بیان کیا ہے، وہ اس حدیث میں نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

وحدثني ابو غسان المسمعي ، حدثنا معاذ يعني ابن هشام ، حدثني ابي ، عن مطر ، عن ابي الزبير ، عن جابر بن عبد الله ، ان عائشة رضي الله عنها في حجة النبي صلى الله عليه وسلم اهلت بعمرة، وساق الحديث بمعنى حديث الليث، وزاد في الحديث، قال: " وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا سهلا إذا هويت الشيء تابعها عليه، فارسلها مع عبد الرحمن بن ابي بكر فاهلت بعمرة من التنعيم "، قال مطر: قال ابو الزبير: فكانت عائشة إذا حجت صنعت كما صنعت مع نبي الله صلى الله عليه وسلم.وحَدَّثَنِي أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعَاذٌ يَعْنِي ابْنَ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ مَطَرٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فِي حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهَلَّتْ بِعُمْرَةٍ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ اللَّيْثِ، وَزَادَ فِي الْحَدِيثِ، قَالَ: " وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا سَهْلًا إِذَا هَوِيَتِ الشَّيْءَ تَابَعَهَا عَلَيْهِ، فَأَرْسَلَهَا مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ فَأَهَلَّتْ بِعُمْرَةٍ مِنَ التَّنْعِيمِ "، قَالَ مَطَرٌ: قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ: فَكَانَتْ عَائِشَةُ إِذَا حَجَّتْ صَنَعَتْ كَمَا صَنَعَتْ مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. مطر نے ابوزبیر سے، انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حج (حجۃ الوداع) کے موقع پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عمرے کا (احرام باندھ کر) تلبیہ پکارا تھا۔ مطر نے آگے لیث کی حدیث کے ہم معنی حدیث بیان کی، (البتہ اپنی) حدیث میں یہ اضافہ کیا کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت نرم خو تھے۔ وہ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) جب بھی کوئی خواہش کرتیں، آپ اس میں ان کی بات مان لیتے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھیجا اور انہوں نے تنعیم سے عمرے کا تلبیہ پکارا (اور عمرہ ادا کیا)۔ مطر نے کہا: ابوزبیر نے بیان کیا: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جب بھی حج فرماتیں تو وہی کرتیں جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں کیا تھا۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج میں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عمرے کا احرام باندھا تھا، آ گے لیث کی مذکورہ بالا روایت کی طرح بیان کیا اور اس حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساتھیوں کے لیے آسانی چاہتے تھے، (نرم اخلاق کے مالک تھے) جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کسی چیز کی خواہش یا فرمائش کرتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بات مان لیتے، فرمائش پوری فرما دیتے) اس لیے، اس کے ساتھ عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیج دیا اور اس نے (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے تنعیم سے عمرہ کا احرام باندھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدثنا احمد بن يونس ، حدثنا زهير ، حدثنا ابو الزبير ، عن جابر رضي الله عنه. ح وحدثنا يحيى بن يحيى واللفظ له اخبرنا ابو خيثمة ، عن ابي الزبير ، عن جابر رضي الله عنه، قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم مهلين بالحج معنا النساء والولدان، فلما قدمنا مكة طفنا بالبيت وبالصفا والمروة، فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من لم يكن معه هدي فليحلل "، قال: قلنا: اي الحل؟، قال: " الحل كله؟ "، قال: فاتينا النساء ولبسنا الثياب ومسسنا الطيب، فلما كان يوم التروية اهللنا بالحج وكفانا الطواف الاول بين الصفا والمروة، فامرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نشترك في الإبل والبقر، كل سبعة منا في بدنة ".حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ. ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَاللَّفْظُ لَهُ أَخْبَرَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ مَعَنَا النِّسَاءُ وَالْوِلْدَانُ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ طُفْنَا بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالمَرْوَةِ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَحْلِلْ "، قَالَ: قُلْنَا: أَيُّ الْحِلِّ؟، قَالَ: " الْحِلُّ كُلُّهُ؟ "، قَالَ: فَأَتَيْنَا النِّسَاءَ وَلَبِسْنَا الثِّيَابَ وَمَسِسْنَا الطِّيبَ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ أَهْلَلْنَا بِالْحَجِّ وَكَفَانَا الطَّوَافُ الْأَوَّلُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَشْتَرِكَ فِي الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ، كُلُّ سَبْعَةٍ مِنَّا فِي بَدَنَةٍ ". زہیر اور ابوخیثمہ نے ابوزبیر سے، انہوں نے جابر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا تلبیہ پکارتے ہوئے نکلے، ہمارے ساتھ عورتیں اور بچے بھی تھے۔ جب ہم مکہ پہنچے تو ہم نے بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ارشاد فرمایا: ”جس کے ہمراہ قربانی کے جانور نہیں ہیں وہ (احرام سے) آزاد ہو جائے۔“ ہم نے دریافت کیا: کون سی آزادی (حلت)؟ آپ نے فرمایا: ”(احرام کی پابندیوں سے) پوری آزادی۔“ (حضرت جابر رضی اللہ عنہما نے کہا:) ہم نے اپنی عورتوں سے قربت کی، اپنے (معمول کے) لباس پہنے اور خوشبو (کا بھی) استعمال کیا۔ جب ترویہ (آٹھ ذوالحجہ) کا دن آیا ہم نے حج کا (احرام باندھ کر) تلبیہ پکارنا شروع کیا اور ہمیں (حج قران کرنے والوں کو) صفا مروہ کے درمیان پہلا طواف (سعی مراد ہے) ہی کافی ہو گیا۔ (ہمیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ بھی) حکم دیا کہ گائے اور اونٹ کی قربانی میں ہم سات سات افراد شریک ہو جائیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابن جریج سے روایت ہے (کہا:) مجھے ابوزبیر نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے خبر دی کہا: جب ہم ”حلت“ کی کیفیت میں آگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ جب منیٰ کا رخ کرنے لگیں تو احرام باندھ لیں۔ (حضرت جابر رضی اللہ عنہما نے کہا:) تو ہم نے مقام ابطح سے تلبیہ پکارنا شروع کیا۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم حلال ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم جب منیٰ کا رخ کریں تو حج کا احرام باندھ لیں، تو ہم نے ابطح سے احرام باندھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
یحییٰ بن سعید اور عبدبن حمید نے محمد بن بکر کے واسطے سے ابن جریج سے حدیث بیان کی، کہا: مجھے ابوزبیر نے خبر دی کہ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ فرما رہے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے صفا مروہ کے درمیان طواف (سعی) ایک ہی مرتبہ کیا تھا۔ (عبدبن حمید نے) محمد بن بکر کی حدیث میں یہ اضافہ کیا: (صفا مروہ کے درمیان) اپنا پہلا طواف (یعنی سعی جو وہ پہلی مرتبہ کر چکے تھے۔) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے صفا اور مروہ کے درمیان ایک ہی طواف کیا تھا، محمد بن بکر کی روایت میں اضافہ ہے، جو پہلے کر چکے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

وحدثني محمد بن حاتم ، حدثنا يحيى بن سعيد ، عن ابن جريج ، اخبرني عطاء ، قال: سمعت جابر بن عبد الله رضي الله عنهما في ناس معي، قال: اهللنا اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم بالحج خالصا وحده، قال عطاء قال جابر: فقدم النبي صلى الله عليه وسلم صبح رابعة مضت من ذي الحجة، فامرنا ان نحل، قال عطاء: قال " حلوا واصيبوا النساء "، قال عطاء: ولم يعزم عليهم ولكن احلهن لهم، فقلنا لما لم يكن بيننا وبين عرفة إلا خمس، امرنا ان نفضي إلى نسائنا، فناتي عرفة تقطر مذاكيرنا المني، قال: يقول جابر: بيده كاني انظر إلى قوله بيده يحركها، قال: فقام النبي صلى الله عليه وسلم فينا، فقال: " قد علمتم اني اتقاكم لله واصدقكم وابركم ولولا هديي لحللت كما تحلون، ولو استقبلت من امري ما استدبرت لم اسق الهدي، فحلوا "، فحللنا وسمعنا واطعنا، قال عطاء: قال جابر: فقدم علي من سعايته، فقال: " بم اهللت؟ "، قال: بما اهل به النبي صلى الله عليه وسلم، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فاهد وامكث حراما "، قال: واهدى له علي هديا، فقال سراقة بن مالك بن جعشم: يا رسول الله العامنا هذا ام لابد؟، فقال: " لابد ".وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي نَاسٍ مَعِي، قَالَ: أَهْلَلْنَا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ خَالِصًا وَحْدَهُ، قَالَ عَطَاءٌ قَالَ جَابِرٌ: فَقَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صُبْحَ رَابِعَةٍ مَضَتْ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، فَأَمَرَنَا أَنْ نَحِلَّ، قَالَ عَطَاءٌ: قَالَ " حِلُّوا وَأَصِيبُوا النِّسَاءَ "، قَالَ عَطَاءٌ: وَلَمْ يَعْزِمْ عَلَيْهِمْ وَلَكِنْ أَحَلَّهُنَّ لَهُمْ، فَقُلْنَا لَمَّا لَمْ يَكُنْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عَرَفَةَ إِلَّا خَمْسٌ، أَمَرَنَا أَنْ نُفْضِيَ إِلَى نِسَائِنَا، فَنَأْتِيَ عرَفَةَ تَقْطُرُ مَذَاكِيرُنَا الْمَنِيَّ، قَالَ: يَقُولُ جَابِرٌ: بِيَدِهِ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى قَوْلِهِ بِيَدِهِ يُحَرِّكُهَا، قَالَ: فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا، فَقَالَ: " قَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي أَتْقَاكُمْ لِلَّهِ وَأَصْدَقُكُمْ وَأَبَرُّكُمْ وَلَوْلَا هَدْيِي لَحَلَلْتُ كَمَا تَحِلُّونَ، وَلَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أَسُقْ الْهَدْيَ، فَحِلُّوا "، فَحَلَلْنَا وَسَمِعْنَا وَأَطَعْنَا، قَالَ عَطَاءٌ: قَالَ جَابِرٌ: فَقَدِمَ عَلِيٌّ مِنْ سِعَايَتِهِ، فَقَالَ: " بِمَ أَهْلَلْتَ؟ "، قَالَ: بِمَا أَهَلَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَأَهْدِ وَامْكُثْ حَرَامًا "، قَالَ: وَأَهْدَى لَهُ عَلِيٌّ هَدْيًا، فَقَالَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِعَامِنَا هَذَا أَمْ لِأَبَدٍ؟، فَقَالَ: " لِأَبَدٍ ". ابن جریج نے کہا: مجھے عطاء نے خبر دی کہ میں نے اپنے متعدد فقہاء کے ساتھ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے (احرام کے وقت) صرف اکیلے حج ہی کا تلبیہ پکارا۔ عطاء نے کہا: حضرت جابر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چار ذوالحجہ کی صبح مکہ پہنچے تھے۔ آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم حلال (احرام کی پابندیوں سے فارغ) ہو جائیں۔ عطاء نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”حلال ہو جاؤ اور اپنی عورتوں کے پاس جاؤ۔“ عطاء نے کہا: (عورتوں کی قربت) آپ نے ان پر لازم قرار نہیں دی تھی بلکہ بیویوں کو ان کے لیے صرف حلال قرار دیا تھا۔ ہم نے کہا: جب ہمارے اور یوم عرفہ کے درمیان محض پانچ دن باقی ہیں آپ نے ہمیں اپنی عورتوں کے پاس جانے کی اجازت مرحمت فرما دی ہے تو (یہ ایسا ہی ہے کہ) ہم (اس) عرفہ آئیں گے تو ہمارے اعضائے مخصوصہ سے منی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے۔ عطاء نے کہا جابر رضی اللہ عنہما اپنے ہاتھ سے (ٹپکنے کا اشارہ کر رہے تھے۔ ایسا لگتا ہے میں اب بھی ان کے حرکت کرتے ہاتھ کا اشارہ دیکھ رہا ہوں۔ جابر رضی اللہ عنہما نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ دینے کے لیے) ہم میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”تم (اچھی طرح) جانتے ہو کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا، تم سب سے زیادہ سچا اور تم سب سے زیادہ پارسا ہوں۔ اگر میرے ساتھ قربانی نہ ہوتی تو میں بھی ویسے حلال (احرام سے فارغ) ہو جاتا جیسے تم حلال ہوئے ہو، اگر وہ چیز پہلے میرے سامنے آجاتی جو بعد میں آئی تو میں قربانی اپنے ساتھ نہ لاتا، لہٰذا تم سب حلال (احرام سے فارغ) ہو جاؤ۔“ چنانچہ پھر ہم حلال ہو گئے۔ ہم نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو) سنا اور اطاعت کی۔ عطاء نے کہا: حضرت جابر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: (اتنے میں) حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی ذمہ داری سے (عہد ہبر آہو کر) پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان سے) پوچھا: ”(علی) تم نے کس (حج) کا تلبیہ پکارا تھا؟“ انہوں نے جواب دیا: جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”قربانی کرو اور احرام ہی کی حالت میں رہو۔“ (جابر رضی اللہ عنہما نے) بیان کیا: حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی اپنے ہمراہ قربانی (کے جانور) لائے تھے۔ سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! یہ (حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا) صرف ہمارے اسی سال کے لیے (جائز ہوا) ہے یا ہمیشہ کے لیے؟ آپ نے فرمایا: ”ہمیشہ کے لیے۔“ حضرت عطاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کچھ ساتھیوں کے ساتھ، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، انہوں نے بتایا کہ ہم نے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے، صرف خالص حج کا احرام باندھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چار ذوالحجہ کی صبح مکہ مکرمہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حلال ہونے کا حکم دیا، عطاء کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حلال ہو جاؤ اور اپنی بیویوں سے تعلقات قائم کرو۔“ عطاء کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلقات قائم کرنا ان کے لیے ضروری قرار نہ دیا لیکن ان کے لیے انہیں جائز قرار دے دیا۔ ہم نے آپس میں کہا، جب ہمارے اور عرفہ کے درمیان صرف پانچ دن رہ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عورتوں کے پاس جانے کے لیے فرما دیا ہے تو ہم عرفہ جائیں گے اور ہمارے عضو مخصوص سے منی ٹپک رہی ہو گی، یعنی تھوڑا عرصہ پہلے ہم تعلقات قائم کر چکے ہوں گے، عطاء کہتے ہیں، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ہاتھ کو حرکت دے رہے تھے، گویا کہ میں آپ (جابر) کے ہاتھ کو حرکت دیتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں خطاب کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”تم خوب جانتے ہو، میں تم میں سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ سچا اور سب سے زیادہ اطاعت گزار ہوں اور اگر میرے پاس ہدی نہ ہوتی تو میں بھی تمہاری طرح حلال ہو جاتا۔ اگر مجھے پہلے اس چیز کا پتہ چل جاتا، جس کا بعد میں پتہ چلا ہے تو میں ہدی ساتھ نہ لاتا، اس لیے تم احرام کھول دو۔“ تو ہم نے بات سنی اور اطاعت کرتے ہوئے احرام کھول دیا، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے فرائض سر انجام دے کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تو نے احرام کس نیت سے باندھا ہے؟“ انہوں نے جواب دیا، جس نیت سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”قربانی کیجئے اور محرم ٹھہریے۔“ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی ہدی لائے تھے، حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ ہمارے اس سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمیشہ کے لیے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدثنا ابن نمير ، حدثني ابي ، حدثنا عبد الملك بن ابي سليمان ، عن عطاء ، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال: اهللنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحج، فلما قدمنا مكة امرنا ان نحل ونجعلها عمرة، فكبر ذلك علينا وضاقت به صدورنا، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فما ندري اشيء بلغه من السماء ام شيء من قبل الناس، فقال: " ايها الناس احلوا، فلولا الهدي الذي معي، فعلت كما فعلتم "، قال: فاحللنا حتى وطئنا النساء، وفعلنا ما يفعل الحلال، حتى إذا كان يوم التروية، وجعلنا مكة بظهر اهللنا بالحج.حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَهْلَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ أَمَرَنَا أَنْ نَحِلَّ وَنَجْعَلَهَا عُمْرَةً، فَكَبُرَ ذَلِكَ عَلَيْنَا وَضَاقَتْ بِهِ صُدُورُنَا، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا نَدْرِي أَشَيْءٌ بَلَغَهُ مِنَ السَّمَاءِ أَمْ شَيْءٌ مِنْ قِبَلِ النَّاسِ، فَقَالَ: " أَيُّهَا النَّاسُ أَحِلُّوا، فَلَوْلَا الْهَدْيُ الَّذِي مَعِي، فَعَلْتُ كَمَا فَعَلْتُمْ "، قَالَ: فَأَحْلَلْنَا حَتَّى وَطِئْنَا النِّسَاءَ، وَفَعَلْنَا مَا يَفْعَلُ الْحَلَالُ، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ، وَجَعَلْنَا مَكَّةَ بِظَهْرٍ أَهْلَلْنَا بِالْحَجِّ. عبدالملک بن ابی سلیمان نے عطاء سے انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا (احرام باندھ کر) تلبیہ کہا۔ جب ہم مکہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم حلال ہو جائیں اور اسے (حج کی نیت کو) عمرے میں بدل دیں، یہ بات ہمیں بہت گراں (بڑی) لگی اور اس سے ہمارے دل بہت تنگ ہوئے (ہمارے اس قلق کی خبر) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچ گئی۔ معلوم نہیں کہ آپ کو آسمان سے (بذریعہ وحی) اس چیز کی خبر پہنچی یا لوگوں کے ذریعے سے کوئی چیز معلوم ہوئی۔ آپ نے فرمایا: ”اے لوگو! حلال ہو جاؤ (احرام کھول دو) اگر میرے ساتھ قربانی نہ ہوتی تو میں بھی وہی کرتا جس طرح تم نے کیا ہے۔“ (جابر رضی اللہ عنہما نے) بیان کیا: ہم حلال (احرام سے آزاد) ہو گئے حتیٰ کہ اپنی بیویوں سے قربت بھی کی اور (وہ سب کچھ) کیا جو حلال (احرام کے بغیر) انسان کرتا ہے۔ حتیٰ کہ ترویہ کا دن (آٹھ ذوالحجہ) آ گیا۔ اور ہم نے مکہ کو پیچھے چھوڑا (خیر باد کہا) اور حج کا (احرام باندھ کر) تلبیہ کہنے لگے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی الله تعالی عنهما بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا احرام باندھا تو جب ہم مکہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں احرام کھولنے اور حج کو عمرہ قرار دینے کا حکم دیا تو یہ چیز ہمارے لیے انتہائی ناگواری کا باعث بنی اور اس سے ہمارے سینے میں تنگی (گھٹن) پیدا ہوئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچ گئی، اس کا ہمیں علم نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم آسمانی وحی سے ہوا، یا لوگوں کی طرف سے پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے لوگو! احرام کھول دو، اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں بھی تمہاری طرح احرام کھول دیتا۔“ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، اس پر ہم حلال ہو گئے، حتی کہ عورتوں سے تعلقات قائم کئے اور حلال والا ہر کام کیا، حتی کہ جب ترویہ کا دن آیا اور ہم مکہ سے روانہ ہو گئے تو ہم نے حج کا احرام باندھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

وحدثنا ابن نمير ، حدثنا ابو نعيم ، حدثنا موسى بن نافع ، قال: قدمت مكة متمتعا بعمرة قبل التروية باربعة ايام، فقال الناس: تصير حجتك الآن مكية، فدخلت على عطاء بن ابي رباح فاستفتيته، فقال عطاء: حدثني جابر بن عبد الله الانصاري رضي الله عنهما، انه حج مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام ساق الهدي معه، وقد اهلوا بالحج مفردا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " احلوا من إحرامكم فطوفوا بالبيت وبين الصفا والمروة، وقصروا واقيموا حلالا، حتى إذا كان يوم التروية فاهلوا بالحج، واجعلوا التي قدمتم بها متعة "، قالوا: كيف نجعلها متعة وقد سمينا الحج؟، قال: " افعلوا ما آمركم به، فإني لولا اني سقت الهدي، لفعلت مثل الذي امرتكم به، ولكن لا يحل مني حرام حتى يبلغ الهدي محله ففعلوا ".وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ نَافِعٍ ، قَالَ: قَدِمْتُ مَكَّةَ مُتَمَتِّعًا بِعُمْرَةٍ قَبْلَ التَّرْوِيَةِ بِأَرْبَعَةِ أَيَّامٍ، فَقَالَ النَّاسُ: تَصِيرُ حَجَّتُكَ الْآنَ مَكِّيَّةً، فَدَخَلْتُ عَلَى عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ فَاسْتَفْتَيْتُهُ، فَقَالَ عَطَاءٌ: حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ حَجَّ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ سَاقَ الْهَدْيَ مَعَهُ، وَقَدْ أَهَلُّوا بِالْحَجِّ مُفْرَدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَحِلُّوا مِنْ إِحْرَامِكُمْ فَطُوفُوا بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَقَصِّرُوا وَأَقِيمُوا حَلَالًا، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ فَأَهِلُّوا بِالْحَجِّ، وَاجْعَلُوا الَّتِي قَدِمْتُمْ بِهَا مُتْعَةً "، قَالُوا: كَيْفَ نَجْعَلُهَا مُتْعَةً وَقَدْ سَمَّيْنَا الْحَجَّ؟، قَالَ: " افْعَلُوا مَا آمُرُكُمْ بِهِ، فَإِنِّي لَوْلَا أَنِّي سُقْتُ الْهَدْيَ، لَفَعَلْتُ مِثْلَ الَّذِي أَمَرْتُكُمْ بِهِ، وَلَكِنْ لَا يَحِلُّ مِنِّي حَرَامٌ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَفَعَلُوا ". موسیٰ بن نافع نے کہا: میں عمرے کی نیت سے یوم ترویہ (آٹھ ذوالحجہ) سے چار دن پہلے مکہ پہنچا لوگوں نے کہا: اب تو تمہارا مکی حج ہو گا۔ (میں ان کی باتیں سن کر) عطاء بن ابی رباح کے ہاں حاضر ہوا اور ان سے (اس مسئلے کے بارے میں) فتویٰ پوچھا۔ عطاء نے جواب دیا: مجھے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے حدیث سنائی کہ انہوں نے اس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کی تھی لوگوں نے حج افراد کا (احرام باندھ کر) تلبیہ کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اپنے احرام سے فارغ ہو جاؤ۔ بیت اللہ کا اور صفا و مروہ کا طواف (سعی کرو)۔ اپنے بال چھوٹے کرو اور حلال (احرام سے آزاد) ہو جاؤ جب ترویہ (آٹھ ذوالحجہ کا) دن آجائے تو حج کا (احرام باندھ کر) تلبیہ کہو۔ اور (حج افراد کو) جس کے لیے تم آئے تھے اسے حج تمتع بنا لو۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کہا: (اے رسول اللہ!) ہم اسے کیسے حج تمتع بنا لیں؟ ہم نے تو صرف حج کا نام لے کر تلبیہ کہا تھا آپ نے فرمایا: ”میں نے تمہیں جو حکم دیا ہے وہی کرو۔ اگر میں اپنے ساتھ قربانی نہ لاتا تو اسی طرح کرتا جس طرح تمہیں حکم دے رہا ہوں۔ لیکن مجھ پر (احرام کی وجہ سے) حرام کردہ چیزیں اس وقت تک حلال نہیں ہوں گی جب تک کہ قربانی اپنی قربان گاہ میں نہیں پہنچ جاتی۔“ اس پر لوگوں نے ویسا ہی کیا (جس کا آپ نے حکم دیا تھا)۔ موسیٰ بن نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں عمرہ سے فائدہ اٹھانے کی نیت سے احرام باندھ کر ترویہ کے دن سے چار دن پہلے مکہ پہنچا تو لوگوں نے کہا، اب تیرا حج مکی ہو گا (یعنی میقات سے حج کا احرام باندھنے والا ثواب نہیں ملے گا) تو میں عطاء بن ابی رباح کے پاس گیا اور ان سے مسئلہ پوچھا، عطاء نے بتایا، مجھے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا، میں نے اس سال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدی ساتھ لے کر گئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا، لوگوں نے حج مفرد کا احرام باندھا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنا احرام کھول دو، یعنی حج کی بجائے عمرہ قرار دے لو، بیت اللہ کا طواف کرو اور درمیان صفا اور مروہ کے، سر کتروا لو اور حلال ہو جاؤ۔ جب ترویہ کا دن آ جائے تو حج کا احرام باندھ لینا اور جس حج کا احرام باندھا ہے، اس کو حج تمتع بنا لو۔“ لوگوں نے عرض کیا، ہم اس کو تمتع کیسے بنا لیں جبکہ ہم نے حج (مفرد) کا احرام باندھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو حکم میں دیتا ہوں، اس پر عمل کرو اور اگر میں ہدی ساتھ نہ لایا ہوتا تو جس کا تمہیں حکم دے رہا ہوں، میں بھی اسی طرح کرتا، لیکن اس وقت تک احرام نہیں کھول سکتا، جب تک ہدی اپنے حلال ہونے کی جگہ نہیں پہنچتی۔“ تو لوگوں نے ایسے ہی کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابوبشر نے عطاء بن ابی رباح سے انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہا: ہم حج کا تلبیہ کہتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (مکہ) آئے آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اس (حج کی نیت اور احرام کو) عمرے میں بدل دیں اور (عمرے کے بعد) حلال (عمرے سے فارغ) ہو جائیں (حضرت جابر رضی اللہ عنہما نے کہا:) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی تھی اس لیے آپ اپنے حج کو عمرہ نہیں بنا سکتے تھے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر (مکہ) پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسے عمرہ قرار دینے کا حکم دیا اور اس بات کا حکم دیا کہ ہم حلال ہو جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چونکہ ہدی تھی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے عمرہ قرار نہ دے سکے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|