الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْحَجِّ حج کے احکام و مسائل 23. باب جَوَازِ التَّمَتُّعِ: باب: حج تمتع کا جواز۔
عبداللہ بن شقیق نے کہا کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے منع کیا تمتع سے اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اس کا حکم کرتے تھے تو سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو کچھ کہا تب سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ جانتے ہیں کہ ہم نے متعہ کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (یعنی تمتع حج کا) تو انہوں نے کہا ہاں مگر ہم اس وقت ڈرتے تھے۔
شعبہ سے ان اسناد کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت ہے۔
سعید بن مسیّب رحمہ اللہ نے کہا کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ دونوں عسفان (کہ نام ہے ایک مقام کا) میں جمع ہوئے اور سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ متعہ سے منع کرتے تھے (یعنی ایام حج میں کہ وہ تمتع ہے) تو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا اراداہ ہے تمہارا اس کام کے ساتھ جو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اور تم اس سے منع کرتے ہو؟ تو سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے کہا: تم ہمیں چھوڑ دو ہمارے حال پر۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہیں نہیں چھوڑ سکتا۔ پھر جب سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے یہ حال دیکھا تو حج اور عمرہ دونوں کا لبیک پکارا۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: تمتع حج کا خاص تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم کے لیے۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: تمتع حج میں ہمارے ہی لیے خاص تھا۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: دو متعے ایسے ہیں کہ ہمارے لیے خاص تھے۔ یعنی متعہ عورتوں کا یعنی نکاح کرنا ایک وقت مقررہ تک اور متعہ حج کا۔
عبدالرحمٰن بن ابی الشعثاء نے کہا کہ آیا میں ابراہیم نخفی اور ابراہیم تیمی کے پاس اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ جمع کروں حج اور عمرہ دونوں کو اس سال میں سو ابراہیم نخعی نے کہا کہ تمہارے والد تو کبھی ایسا ارادہ نہ کرتے تھے۔ اور قتیبہ نے کہا کہ روایت کی ہم سے سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے، ان سے بیان نے، ان سے ابراہیم تیمی نے، ان سے ان کے باپ نے کہ وہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ربذہ کو گئے اور ان سے حج و عمرہ جمع کرنے کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم لوگوں کے لیے خاص تھا اور تمہارے واسطے نہیں ہے یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم کے سوا اوروں کو روا نہیں۔
فزاری نے روایت کی کہ سعید نے کہا کہ روایت کی مجھ سے مروان نے جو فرزند ہیں معاویہ کے کہ خبر دی ہم کو سلیمان تیمی نے غنیم بن قیس سے کہ انہوں نے کہا: میں نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا متعہ کے بارے میں تو انہوں نے فرمایا کہ ہم نے متعہ کیا ہے اور معاویہ اس دن کافر تھے مکہ کے گھروں میں۔
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث روایت کی گئی ہے اور سفیان کی روایت میں حج تمتع کے الفاظ ہیں۔
مطرف نے کہا کہ مجھ سے سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تم سے آج ایک حدیث بیان کروں کہ اللہ تعالیٰ تم کو آج کے بعد اس کا نفع دے اور جان لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھروالوں سے ایک گروہ کو عمرہ کروایا عشرہ ذی الحجہ میں اور پھر اس پر کوئی آیت نہ اتری کہ اس کو منسوخ کرتی اور نہ ان دونوں میں عمرہ سے منع فرمایا یہاں تک کہ دنیا سے چلے گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس کا جو جی چاہے، اپنی رائے سے کہا کرے۔
جریری سے اسی سند سے یہی حدیث مروی ہے اور ابن حاتم کی روایت میں یہ ہے کہ پھر ایک شخص نے اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا یعنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے۔
مطرف نے کہا کہ مجھ سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تم سے ایک حدیث بیان کروں شاید اللہ عزوجل تم کو فائدہ بخشے اور وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ جمع کیا اور پھر اس سے منع نہ فرمایا یہاں تک کہ آپ فوت ہو گئے اور نہ اس میں کوئی قرآن کی آیت اتری جس سے ان کا جمع کرنا حرام ہوتا اور ہمیشہ میرے لیے سلام فرمایا جاتا تھا جب تک میں نے داغ نہیں لیا تھا پھر جب داغ لیا تو سلام موقوف ہو گیا پھر میں نے داغ لینا چھوڑ دیا تو پھر سلام ہونے لگا مجھ سے۔
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
مطرف نے کہا: مجھے پیغام بھیج کر سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے بلا بھیجا اس بیماری میں جس ان کی وفات ہوئی تھی اور کہا: میں تم سے کئی حدیثیں بیان کرتا ہوں شاید اللہ تعالیٰ میرے بعد تم کو اس سے نفع دے پھر اگر میں جیتا رہا (یعنی اس مرض سے اچھا ہو کر) تو تم اس کو میرے نام سے بیان نہ کرنا اور پوشیدہ رکھنا اور اگر میں مر گیا تو چاہنا تو بیان کرنا۔ اول بات یہ ہے کہ مجھ پر سلام کیا گیا (یعنی فرشتوں کا) دوسرے یہ کہ میں خوب جانتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ دونوں کو جمع کیا (یعنی ایام حج میں) اور پھر اس میں نہ تو قرآن اترا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جمع سے منع فرمایا اور اس شخص نے جو چاہا سو اپنی رائے سے کہہ دیا (یعنی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے)۔
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جان لو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ کو اکھٹا کیا، پھر نہ تو اس بارے میں قرآن اترا اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا اور ایک شخص نے اس بارے میں اپنی رائے سے جو جی چاہا کہہ دیا۔
مطرف سے مروی ہے کہ عمران نے ان سے کہا کہ معتہ کیا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور نہ اترا اس میں قرآن (یعنی اس سے نہی میں) پھر فلاں شخص نے اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا۔
اور کہا امام مسلم رحمہ اللہ نے کہ روایت کی مجھ سے حجاج بن شاعر نے ان سے عبیداللہ بن عبدالمجید نے، ان سے اسماعیل بن مسلم نے، ان سے محمد بن واسع نے، ان سے مطرف بن عبداللہ بن شخیر نے، ان سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے یہی حدیث کہ متعہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور متعہ کیا ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ۔
وہی مضمون ہے جو اوپر مذکور ہوا کہا مسلم نے کہ روایت کی کہ مجھ سے محمد بن حاتم نے، ان سے یحییٰ نے، ان سے عمران قیصر نے، ان سے ابورجاء نے، ان سے عمران بن حصین نے مثل اسی روایت کے مگر اتنا فرق ہے کہ انہوں نے کہا کہ کیا ہم نے یہ (یعنی متعہ حج کا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور یہ نہیں کہا کہ حکم کیا ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا یعنی جیسے اوپر کی روایت میں حکم کا ذکر تھا ویسا اس میں نہیں۔
ابورجاء سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں اسی طرح سوائے اس کے کہ انہوں نے کہا کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسی طرح کیا اور «اَمَرََنَا» کے الفاظ نہیں بولے۔
|