الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الزَّكَاةِ زکاۃ کے احکام و مسائل 36. باب مَنْ تَحِلُّ لَهُ الْمَسْأَلَةُ: باب: کس شخص کے لئے سوال کرنا جائز ہے؟
سیدنا قبیصہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں قرضدار ہو گیا تھا ایک بڑی رقم کا (یعنی دو قبیلوں کی اصلاح وغیرہ کے لئے یا کسی اور امر خیر کے واسطے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ٹھہرو کہ ہمارے پاس صدقات کا مال آئے تو ہم اس میں کچھ تم کو دیں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے قبیصہ! سوال حلال نہیں مگر تین شخصوں کو ایک تو وہ جو قرضدار ہو جائے (کسی امر خیر میں) تو حلال ہو جاتا ہے اس کو سوال یہاں تک کہ مل جائے اس کو اتنا مال کہ درست ہو جائے اس کی گزران پھر سوال سے باز رہے، دوسرے وہ شخص کہ پہنچی ہو آفت اس کے مال میں کہ ضائع ہو گیا ہو مال اس کا تو حلال ہو جاتا ہے سوال اس کو یہاں تک کہ مل جائے اس کو اتنی رقم کہ درست ہو جائے اس کی گزران (راوی کو شک ہے کہ «قوام» فرمایا یا «سداد» معنی دونوں کے ایک ہیں)، تیسرا وہ کہ پہنچا ہو اس کو فاقہ اور تین شخص عقل والوں میں سے اس کی قوم کے گواہی دیں کہ اس کو بیشک فاقہ پہنچا ہے اس کو بھی سوال جائز ہے جب تک کہ اپنی گزران درست ہونے کے موافق نہ پائے اور سوا ان لوگوں کے اے قبیصہ! سوال حرام ہے اور سوا ان کے جو سوال کرنے والا ہے وہ حرام کھاتا ہے۔“
|