الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ زہد اور رقت انگیز باتیں 1ق. باب مَا جَاءَ أَنَّ الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ باب: دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہونے کے بیان میں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا قید خانہ ہے مومن کے لیے اور جنت ہے کافر کے لیے۔“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں سے گزرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں آ رہے تھے کسی عالیہ کی طرف سے (عالیہ وہ گاؤں ہیں جو مدینہ کے باہر بلندی پر واقع ہیں) اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک طرف یا دونوں طرف تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بھیڑ کا بچہ چھوٹے کان والا مردہ دیکھا، اس کا کان پکڑا پھر فرمایا: ”تم میں سے کون یہ لیتا ہے ایک درہم کو؟“ لوگوں نے عرض کیا: ہم ایک درہم سے کم میں بھی اس کو لینا نہیں چاہتے (یعنی کسی چیز کے بدلے) اور ہم اس کو کیا کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم چاہتے ہو کہ یہ تم کو مل جائے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم! اگر یہ زندہ ہوتا تب بھی اس میں عیب تھا کہ کان اس کے بہت چھوٹے ہیں پھر مرنے پر اس کو کون لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! دنیا اللہ جل جلالہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے جیسے یہ تمہارے نزدیک۔“
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
مطرف سے روایت ہے، انہوں نے سنا اپنے باپ سے، وہ کہتے تھے: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم «أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ» پڑھ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کہتا ہے مال میرا، مال میرا اور اے آدمی! تیرا مال کیا ہے؟ تیرا مال وہی ہے جو تو نے کھایا اور فنا کیا یا پہنا اور پرانا کیا یا صدقہ دیا اور چھٹی کی۔“
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ کہتا ہے مال میرا، مال میرا، حالانکہ اس کا مال تین چیزیں ہیں: جو کھایا اور فنا کیا اور جو پہنا اور پرانا کیا اور جو اللہ کی راہ میں دیا اور جمع کیا۔ اس کے سوا تو وہ جانے والا ہے اور چھوڑ جانے والا ہے لوگوں کے لیے۔“
علاء بن عبدالرحمٰن سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح مروی ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مردے کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں پھر دو لوٹ آتی ہیں اور ایک رہ جاتی ہے اس کے ساتھ، اس کے گھر والے اور مال اور عمل، تو گھر والے اور مال تو لوٹ جاتے ہیں اور عمل اس کے ساتھ رہ جاتا ہے۔“ (پس رفاقت پوری عمل کرتا ہے اسی کے لیے انسان کو کوشش کرنی چاہیے اور لڑکے، بالے بچے، مال و دولت یہ سب زندگی کے ساتھی ہیں مرنے کے بعد کچھ کام نہیں ان میں دل لگانا بے عقلی ہے)۔
سیدنا عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو بحرین کی طرف بھیجا وہاں کا جزیہ لانے کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کر لی تھی بحرین والوں سے اور ان پر حاکم کیا تھا علاء بن حضرمی کو، پھر ابوعبیدہ وہ مال لے کر آئے بحرین سے، یہ خبر انصار کو پہنچی۔ انہوں نے فجر کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو انصار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھ کر تبسم فرمایا پھر فرمایا: ”میں سمجھتا ہوں تم نے سنا کہ ابوعبیدہ بحرین سے کچھ مال لے کر آئے ہیں۔“ (اور تم اسی خیال سے آج جمع ہوئے کہ مال ملے گا)۔ انہوں نے کہا: بے شک یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا: ”خوش ہو جاؤ اور امید رکھو اس بات کی جس سے خوش ہو گے تم، تو اللہ کی قسم! فقیری کا مجھے تم پر ڈر نہیں لیکن مجھے اس کا ڈر ہے کہ کہیں دنیا تم پر کشادہ ہو جائے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ ہوئی تھی پھر ایک دوسرے سے حسد کرنے لگو جیسے پہلے لوگوں نے حسد کیا تھا اور ہلاک کر دے تم کو جیسے ان کو ہلاک کیا تھا۔“
زہری سے یونس کی سند کے مطابق روایت ہے اور اس میں یہ ہے کہ ”غافل کر دے تم کو جیسے پہلے لوگوں کو غافل کر دیا تھا۔“
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب فارس اور روم فتح ہو جائیں گے تو تم کیا کہو گے؟“ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم وہی کہیں گے جو اللہ تعالیٰ نے ہم کو حکم کیا (یعنی اس کا شکر کریں گے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور کچھ نہیں کہتے، رشک کرو گے پھر حسد کرو گے پھر بگاڑو گے دوستوں سے پھر دشمنی کرو گے دوستوں سے پھر دشمنی کرو گے۔“ یا ایسا ہی کچھ فرمایا ”پھر مسکین مہاجرین کے پاس ہو جاؤ گے اور ایک کو دوسروں کا حکم بناؤ گے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی تم میں سے دوسرے کو دیکھے جو اپنے سے زیادہ ہو مال اور صورت میں تو اس کو دیکھے جو اپنے سے کم ہو مال اور صورت میں۔“ (تاکہ اللہ کا شکر پیدا ہو اور علم اور تقویٰ میں اس کو دیکھے جو اپنے سے زیادہ ہو)۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کو دیکھو جو تم سے کم ہے (مال اور دولت میں اور حسن و جمال میں اور بال بچوں میں) اور اس کو مت دیکھو جو تم سے زیادہ ہے۔ اگر ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے اپنے اوپر۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی اسرائیل کے لوگوں میں تین آدمی تھے ایک کوڑھی سفید داغ والا، دوسرا گنجا، تیسرا اندھا، سو اللہ نے چاہا کہ ان کو آزمائے تو ان کے پاس فرشتہ بھیجا سو وہ سفید داغ والے کے پاس آیا پھر اس نے کہا: کہ تجھ کو کون سی چیز بہت پیاری ہے؟ اس نے کہا: اچھا رنگ اور اچھی کھال اور مجھ سے یہ بیماری دور ہو جائے جس کے سبب لوگ مجھ سے گھن کرتے ہیں۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک فرشتہ نے اس پر ہاتھ ملا سو اس کی گھن دور ہو گئی اور اس کو اچھا رنگ اور اچھی کھال دی گئی۔ فرشتہ نے کہا: کون سا مال تجھ کو بہت پسند ہے؟ اس نے کہا: اونٹ یا گائے۔“ اسحاق بن عبداللہ اس حدیث کے ایک راوی کو شک پڑ گیا کہ اس نے اونٹ مانگا یا گائے، لیکن سفید داغ والے یا گنجے نے ان میں سے ایک نے اونٹ کہا، دوسرے نے گائے، سو اس کو دس مہینے کی گابھن اونٹنی دی۔ پھر کہا: اللہ تعالیٰ تیرے واسطے اس میں برکت دے۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرشتہ پھر گنجے کے پاس آیا سو کہا: کون سی چیز تجھ کو بہت پسند آتی ہے؟ اس نے کہا: اچھے بال اور یہ بیماری جاتی رہے جس کے سبب سے لوگ مجھ سے گھناتے ہیں۔ پھر اس نے اس پر ہاتھ ملا سو اس کی بیماری دور ہو گئی اور اس کو اچھے بال ملے۔ فرشتہ نے کہا: کہ کون سا مال تجھ کو بھاتا ہے۔ اس نے کہا کہ گائے؟ سو اس کو گابھن گائے ملی۔ فرشتہ نے کہا: اللہ تیرے مال میں برکت دے۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا سو کہا کہ تجھ کو کون سی چیز بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ میری آنکھ میں روشنی دے تو میں اس کے سبب لوگوں کو دیکھوں۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر فرشتہ نے اس پر ہاتھ ملا سو اس کو اللہ تعالیٰ نے روشنی دی۔ فرشتہ نے کہا کہ کون سا مال تجھ کو بہت پسند ہے؟ اس نے کہا: بھیڑ بکری۔ تو اس کو گابھن بکری ملی۔ پھر اونٹنی اور گائے اور بکری بھی جنی۔ پھر ہوتے ہوتے سفید داغ والے کے جنگل بھر اونٹ ہو گئے اور گنجے کے جنگل بھر گائے بیل ہو گئے اور اندھے کے جنگل بھر بکریاں ہو گئیں۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بعد مدت کے وہی فرشتہ سفید داغ والے کے پاس اپنی اگلی صورت اور شکل میں آیا، سو اس نے کہا کہ میں محتاج آدمی ہوں سفر میں میرے تمام اسباب کٹ گئے (یعنی تدبیریں جاتی رہیں اور مال اور اسباب نہ رہا) سو آج منزل پر پہنچنا مجھ کو ممکن نہیں بدوں اللہ کی مدد کے پھر بدوں تیرے کرم کے۔ میں تجھ سے مانگتا ہوں اسی کے نام پر جس نے تجھ کو ستھرا رنگ اور ستھری کھال اور مال اونٹ دئیے، ایک اونٹ دے جو میرے سفر میں کام آئے۔ اس نے اس سے کہا: لوگوں کے حق مجھ پر بہت ہیں (یعنی قرضدار ہوں یا گھربار کے خرچ سے مال زیادہ نہیں جو تجھ کو دوں)۔ پھر فرشتہ نے کہا: البتہ میں تجھ کو پہچانتا ہوں بھلا کیا تو محتاج کوڑھی نہ تھا کہ تجھ سے لوگ گھناتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے تجھ کو یہ مال دیا۔ اس نے جواب دیا: کہ میں نے تو یہ مال اپنے باپ دادا سے پایا ہے جو کئی پشت سے بڑے آدمی تھے۔ فرشتہ نے کہا: اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھ کو ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو تھا۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اسی اپنی صورت اور شکل میں پھر اس سے کہا: جیسا سفید داغ والے سے کہا تھا۔ اس نے وہی جواب دیا جو سفید داغ والے نے دیا تھا۔ فرشتہ نے کہا: اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھ کو ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو تھا۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور فرشتہ اندھے کے پاس گیا اپنی اسی صورت اور شکل میں پھر فرشتہ نے کہا: میں محتاج آدمی اور مسافر ہوں میرے سفر میں سب وسیلے اور تدبیریں کٹ گئیں سو مجھ کو آج منزل پر پہنچنا بغیر اللہ کی مدد اور تیرے کرم کے مشکل ہے۔ سو میں تجھ سے اس اللہ کے نام پر جس نے تجھ کو آنکھ دی ایک بکری مانگتا ہوں کہ میرے سفر میں وہ کام آئے۔ اس نے کہا: بے شک میں اندھا تھا اللہ نے مجھ کو آنکھ دی تو لے جا ان بکریوں میں سے جتنا تیرا جی چاہے اور چھوڑ جا بکریوں میں سے جتنا تیرا جی چاہے۔ اللہ کی قسم! آج جو چیز تو اللہ کی راہ میں لے گا میں تجھ کو مشکل میں نہیں ڈالوں گا (یعنی تیرا ہاتھ نہ پکڑوں گا) سو فرشتہ نے کہا: اپنا مال رہنے دے تم تینوں آدمی صرف آزمائے گئے تھے۔ سو تجھ سے تو البتہ اللہ راضی ہوا اور تیرے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہوا۔“
عامر بن سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے، سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنے اونٹوں میں تھے اتنے میں ان کا بیٹا عمر آیا (یہ عمر بن سعد وہی ہے جو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے لڑا اور جس نے دنیا کے لیے اپنی آخرت برباد کی) جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھا تو کہا: پناہ مانگتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کی اس سوار کے شر سے۔ پھر وہ اترا اور بولا: تم اپنے اونٹوں اور بکریوں میں اترے ہو اور لوگوں کو چھوڑ دیا وہ سلطنت کے لیے جھگڑ رہے ہیں (یعنی خلافت اور حکومت کے لیے) سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے اس کے سینہ پر مارا اور کہا: چپ رہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اللہ دوست رکھتا ہے اس بندہ کو جو پرہیز گار ہے، مالدار ہے۔ چھپا بیٹھا ہے ایک کونے میں (فساد اور فتنے کے وقت) اور دنیا کے لیے اپنا ایمان نہیں بگاڑتا۔“ (افسوس ہے کہ عمر بن سعد نے اپنے باپ کی نصیحت کو فراموش کیا اور دنیا کی طمع میں آخر ت بھی خراب کی۔ نووی رحمہ اللہ نے کہا: مالدار سے یہ مراد ہے کہ دل اس کا غنی ہو اور قاضی رحمہ اللہ نے کہا: مالدار سے ظاہری معنی مراد ہے۔)
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے تھے: قسم اللہ کی میں پہلا وہ شخص ہوں جس نے تیر مارا اللہ کی راہ میں اور ہم جہاد کرتے تھے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہ ہوتا مگر پتے حبلہ اور سمر کے (یہ دونوں جنگلی درخت ہیں) یہاں تک کہ ہم میں سے کوئی ایسا پاخانہ پھرتا جیسے بکری پھرتی ہے۔ پھر آج بنو اسد کے لوگ (یعنی زبیر رضی اللہ عنہ کی اولاد) مجھ کو دین کی باتیں سکھلاتے ہیں یا دین کے لیے تنبیہ کرتے ہیں یا سزا دینا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو بالکل نقصان میں پڑا اور میری محنت ضائع ہو گئی۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ یہاں تک کہ ہم میں سے کوئی پاخانہ پھرتا جیسے بکری پھرتی ہے اس میں کچھ نہ ملا ہوتا (یعنی خالص پتے ہوتے)۔
خالد بن عمیر عدوی سے روایت ہے، عتبہ بن عروان نے (جو امیر تھے بصرہ کے) ہم کو خطبہ سنایا تو اللہ تعالیٰ کی ثنا کی پھر کہا بعد حمد وصلوۃ کے۔ معلوم ہو کہ دینا نے خبر دی ختم ہونے کی اور دنیا میں سے کچھ باقی نہ رہا مگر جیسے برتن میں کچھ بچا ہوا پانی رہ جاتا ہے جس کو اس کا صاحب بچا رکھتا ہے اور تم دنیا سے ایسے گھر کو جانے والے ہو جس کو زوال نہیں تو اپنے ساتھ نیکی کر کے لے جاؤ اس لیے کہ ہم سے بیان کیا گیا کہ پتھر ایک کنارے سے جہنم کے ڈالا جائے گا اور ستر برس تک اس میں اترتا جائے گا۔ اور اس کی تہہ کو نہ پہنچے گا۔ اللہ کی قسم! جہنم بھری جائے گی، کیا تم تعجب کرتے ہو اور ہم سے بیان کیا گیا کہ جنت کے ایک کنارے سے لے کر دوسرے کنارے تک چالیس برس کی راہ ہے اور ایک دن ایسا آئے گا کہ جنت لوگوں کے ہجوم سے بھری ہو گی اور تو نے دیکھا ہوتا میں ساتواں تھا سات شخصوں میں سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہمارا کھانا کچھ نہ تھا سوائے درخت کے پتوں کے یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہو گئی (بوجہ پتوں کی حرارت اور سختی کے) میں نے ایک چادر پائی اور اس کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کئے۔ ایک ٹکڑے کا میں نے تہبند بنایا اور دوسرے ٹکڑے کا سعد بن مالک نے۔ اب آج کے رواز کوئی ہم میں سے ایسا نہیں ہے کہ کسی شہر کا حاکم نہ ہو اور میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی، اس بات سے کہ میں اپنے تئیں بڑا سمجھوں اور اللہ کے نزدیک چھوٹا ہوں اور بے شک کسی پیغمبر کی نبوت (دنیا میں) ہمیشہ نہیں رہی بلکہ نبوت کا اثر (تھوڑی مدت میں) جاتا رہا یہاں تک کہ آخری انجام اس کا یہ ہوا کہ وہ سلطنت ہو گئی تو تم قریب پاؤ گے اور تجربہ کرو گے ان امیروں کا جو ہمارے بعد آئیں گے (کہ ان میں دین کی باتیں جو نبوت کا اثر ہے نہ رہیں گی اور وہ بالکل دنیا دار ہو جائیں گے)۔
سیدنا خالد بن عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے جاہلیت کا زمانہ پایا تھا وہ حاکم تھے بصرہ کے، پھر بیان کیا اسی طرح جیسے اوپر گزرا۔
سیدنا خالد بن عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سنا عتبہ بن غزوان سے، وہ کہتے تھے: تو مجھے دیکھتا میں ساتواں شخص تھا سات آدمیوں کا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہمارا کھانا کچھ نہ تھا سوائے حبلہ (ایک درخت ہے) کے پتوں کے یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہو گئیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم اپنے پروردگار کو دیکھیں گے قیامت کے دن؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم کو شک پڑتا ہے آفتاب کے دیکھنے میں ٹھیک دوپہر کو جب کہ بدلی نہ ہو؟“ اصحاب نے کہا: کہ نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سو کیا تم کو تردد ہوتا ہے چاند کے دیکھنے میں چودہویں رات کو جب کہ بدلی نہ ہو؟“ اصحاب نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سو قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم کو اپنے رب کے دیدار میں کچھ شبہ اور اختلاف نہ ہو گا مگر جیسے سورج یا چاند کے دیکھنے میں۔“ (یعنی جیسے چاند سورج کی رؤیت میں اشتباہ نہیں ویسے ہی اللہ تعالیٰ کی رؤیت میں اشتباہ نہ ہو گا) ”پھر حق تعالیٰ حساب کرے گا بندے سے، سو کہے گا: اے فلاں بندے! بھلا میں نے تجھ کو عزت نہیں دی اور تجھ کو سردار نہیں کیا اور تجھ کو تیرا جوڑا نہیں دیا اور گھوڑوں اور اونٹوں کو تیرا تابع نہیں کیا اور تجھ کو چھوڑا کہ تو اپنی قوم کی ریاست کرتا تھا اور چوتھائی حصہ لیتا تھا؟ تو بندہ کہے گا: سچ ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو حق تعالیٰ فرمائے گا: بھلا تجھ کو معلوم تھا کہ تو مجھ سے ملے گا؟ سو بندہ کہے گا کہ نہیں۔ تو حق تعالیٰ فرمائے گا کہ اب ہم بھی تجھ کو بھولتے ہیں (یعنی تیری خبر نہ لیں گے اور تجھ کو عذاب سے نہ بچایئں گے) جیسے تو ہم کو بھولا۔ پھر اللہ تعالیٰ دوسرے بندے سے حساب کرے گا تو کہے گا: اے فلاں! بھلا میں نے تجھ کو عزت نہیں دی اور تجھ کو سردار نہیں بنایا اور تجھ کو تیرا جوڑا نہیں دیا اور گھوڑوں اور اونٹوں کو تیرا تابع نہیں کیا اور تجھ کو چھوڑا کہ تو اپنی قوم کی ریاست کرتا تھا اور چوتھائی حصہ لیتا تھا؟ تو بندہ کہے گا: سچ ہے اے میرے رب! پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: بھلا تجھ کو معلوم تھا کہ تو مجھ سے ملے گا؟ تو بندہ کہے گا کہ نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: سو مقرر میں بھی اب تجھے بھلا دیتا ہوں جیسے تو مجھ کو دنیا میں بھولا تھا۔ پھر تیسرے بندے سے حساب کرے گا اس سے بھی اسی طرح کہے گا۔ بندہ کہے گا: اے رب! میں تجھ پر ایمان لایا اور تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر اور میں نے نماز پڑھی، روزہ رکھا، صدقہ دیا اسی طرح اپنی تعریف کرے گا جہاں تک اس سے ہو سکے گا۔ حق تعالیٰ فرمائے گا: دیکھ یہیں تیرا جھوٹ کھل جاتا ہے۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر حکم ہو گا اب ہم تیرے اوپر گواہ کھڑا کرتے ہیں۔ بندہ اپنے جی میں سوچے گا کہ کون مجھ پر گواہی دے گا۔ پھر اس کے منہ پر مہر لگ جائے گی اور حکم ہو گا اس کی ران سے کہ بول، تو اس کی ران کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے اعمال کی گواہی دیں گی۔ اور یہ گواہی اس واسطے ہو گی تاکہ اس کا عذر باقی نہ رہے، اسی کی ذات کی گواہی سے اور یہ شخص منافق یعنی جھوٹا مسلمان ہو گا اور اسی پر اللہ تعالیٰ غصہ کرے گا (اور پہلے دونوں کافر تھے۔ معاذ اللہ جب تک دل سے خالص اللہ کے لیے عبادت نہ ہو تو کچھ فائدہ نہیں۔ لوگوں کو دکھانے کی نیت سے نماز یا روزہ ادا کرنا وبال ہے اس سے نہ کرنا بہتر ہے)۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جانتے ہو میں کسی واسطے ہنستا ہوں؟“ ہم نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ہنستا ہوں بندے کی گفتگو پر جو وہ اپنے مالک سے کرے گا۔ بندہ کہے گا: اے مالک میرے! کیا تو مجھ کو پناہ نہیں دے چکا ہے ظلم سے۔“ (یعنی تو نے وعدہ کیا ہے کہ ظلم نہ کروں گا)؟“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ جواب دے گا: ہاں ہم ظلم نہیں کرتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر بندہ کہے گا کہ میں جائز نہیں رکھتا کسی کی گواہی اپنے اوپر سوائے اپنی ذات کی گواہی کے۔ پروردگار فرمائے گا: اچھا تیری ہی ذات کی گواہی تجھ پر آج کے دن کفایت کرتی ہے اور کراماً کاتبین کی گواہی۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر مہر لگ جائے گی بندہ کے منہ پر اور اس کے ہاتھ پاؤں سے کہا جائے گا، تم بولو! وہ اس کے سارے اعمال بول دیں گے۔ پھر بندہ کو بات کرنے کی اجازت دی جائے گی، بندہ اپنے ہاتھ پاؤں سے کہے گا: چلو دور ہو جاؤ اللہ کی مار تم پر میں تو تمہارے لیے جھگڑا کرتا تھا۔“ (یعنی تمہارا ہی بچانا دوزخ سے مجھ کو منظور تھا سو تم آپ ہی گناہ کا اقرار کر چکے ہو اب دوزخ میں جاؤ)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللَّهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوتًا» ”یا اللہ! محمد(صلى الله عليه وسلم) کی آل کو بقدر کفاف روزی دے۔“ (یعنی بہت زیادہ دنیا نہ دے، ضرورت کے موافق دے تاکہ وہ تیری یاد سے غافل نہ ہو جائیں)۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ عمرو کی روایت میں «اللَّهُمَّ اجْعَلْ» کی بجائے «اللَّهُمَّ ارْزُقْ» ہے۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل جب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے کبھی تین دن برابر گہیوں کی روٹی سے سیر نہیں ہوئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی (باوجود اس کے دین اور دنیا کی بادشاہت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھی اگر اللہ چاہتا تو تمام دنیا کی دولت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مل جاتی)۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ دوسری روایت میں یہ ہے کہ دو دن تک برابر جو کی روٹی سے سیر نہ ہوئے۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مگر اس میں ہے کہ تین دن سے زیادہ گہیوں کی روٹی سے سیر نہ ہوئے۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل دو دن تک گہیوں کی روٹی سے سیر نہیں ہوئی مگر ایک دن صرف کھجور ملی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہم آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ مہینہ مہینہ بھر تک آگ نہ سلگاتے، صرف کھجور اور پانی پر گزارا کرتے۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں اتنا زیادہ ہے مگر جب گوشت ہمارے پاس آتا تو آگ سلگاتے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اور میرے دانوں کے برتن میں تھوڑی جَو تھی اور میں اسی کو کھایا کرتی یہاں تک کہ بہت دن گزر گئے میں نے ان کو ماپا تو وہ ختم ہو گئے (معلوم ہوا کہ مجہول اور مبہم شئے میں برکت زیادہ ہوتی ہے)۔
عروہ سے روایت ہے، ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں: قسم اللہ کی! اے بھانجے میرے! ہم ایک چاند دیکھتے، دوسرا دیکھتے، تیسرا۔ دو مہینے میں تین چاند دیکھتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں اس مدت تک آگ نہ جلتی۔ میں نے کہا: اے خالہ! پھر آپ کیا کھاتیں؟ انہوں نے کہا: کھجور اور پانی۔ البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ہمسائے تھے، ان کے جانور دودھ والے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ بھیجتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو وہ دودھ پلاتے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیر نہیں ہوئے روٹی اور زیتون سے ایک دن میں دو بار۔ (یعنی صبح اور شام دونوں وقت سیر ہو کر نہیں کھایا)۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور ہم سیر ہوئے تھے پانی اور کھجور سے۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
سفیان سے اسی سند کے ساتھ روایت ہے اور اس میں یہ ہے کہ ہم سیر نہیں ہوئے کھجور اور پانی سے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اس کی جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ کی جان ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کو سیر نہیں کیا تین دن پے در پے گہیوں کی روٹی سے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے دنیا سے۔
ابوحازم سے روایت ہے، میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ اپنی دونوں انگلیوں سے اشارہ کرتے بار بار اور کہتے: قسم اس کی جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ کی جان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گھر والے کبھی تین دن پے در پے گیہوں کی روٹی سے سیر نہیں ہوئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے دنیا سے۔
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے تھے: کیا تم نہیں کھاتے اور پیتے جو چاہتے ہو، میں نے تمہارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے ان کو خراب کھجور بھی پیٹ بھر کر نہیں ملتی تھی۔
سماک سے اس سند کے ساتھ روایت ہے اور زہیر کی روایت میں یہ ہے کہ تم بغیر کھجور اور مکھن کے طرح طرح کے کھانوں کے راضی نہیں ہوتے۔
سماک بن حرب سے روایت ہے کہ میں نے سنا سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ کو خطبہ پڑھتے ہوئے وہ کہتے تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا دنیا کا جو لوگوں نے حاصل کی پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سارا دن بے قرار رہتے بھوک سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خراب کھجور نہ ملتی جس سے اپنا پیٹ بھریں۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے پوچھا: کیا ہم مہاجرین فقیروں میں سے ہیں؟ عبداللہ نے کہا: تیری جورو ہے جس کے پاس تو رہاتا ہے؟ وہ بولا: ہاں۔ عبداللہ نے کہا: تیرا گھر ہے۔ جس میں تو رہتا ہے۔ وہ بولا: ہاں۔ عبداللہ نے کہا: تو امیروں میں سے ہے۔ وہ بولا: میرے پاس ایک خادم بھی ہے۔ عبداللہ نے کہا: پھر تو تو بادشاہوں میں سے ہے۔
ابوعبدالرحمن نے کہا: تین آدمی سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کے پاس آئے، میں ان کے پاس موجود تھا۔ وہ کہنے لگے، اے ابومحمد! اللہ کی قسم! ہم کو کوئی چیز میسر نہیں، نہ خرچ ہے، نہ سواری، نہ اسباب۔ عبداللہ نے کہا: تم جو چاہو میں کروں اگر چاہتے ہو تو ہمارے پاس چلے آؤ ہم تم کو وہ دیں گے جو اللہ نے تمہاری تقدیر میں لکھا ہے اور اگر کہو تو ہم تمہارا ذکر بادشاہ سے کریں اور جو چاہو تو صبر کرو اس لیے کہ میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”مہاجرین محتاج مالداروں سے چالیس برس پہلے (جنت میں) جائیں گے۔“ وہ بولے: ہم صبر کرتے ہیں اور کچھ نہیں مانگتے۔
|