الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ فتنے اور علامات قیامت 20. باب ذِكْرِ الدَّجَّالِ: باب: دجال کا بیان۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر کیا لوگوں میں اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے اور خبردار رہو دجال مسیح کی داہنی آنکھ کانی ہے گویا اس کی آنکھ انگور ہے پھولا ہوا۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی ہی روایت بیان کرتے ہیں۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی امت کو کانے جھوٹے سے نہ ڈرایا ہو۔ خبردار رہو! وہ کانا ہے اور تمہارا پروردگار کانا نہیں ہے اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں ک ف ر لکھا ہے۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان یہ لکھا ہو گا ک ف ر یعنی کافر۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دجال کی ایک آنکھ اندھی ہے (اسی واسطے اس کو مسیح کہتے ہیں) اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہے پھر اس کے ہجے کئے یعنی ک، ف اور ر ہر مسلمان اس کو پڑھ لے گا۔“
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دجال بائیں آنکھ کا کانا ہو گا (اوپر ابن عمر کی حدیث میں گزرا کہ داہنی آنکھ کا کانا ہو گا اور دونوں میں سے ایک روایت میں سہو ہے۔ غرض ایک آنکھ اس کی کانی ہو گی) گھنے بالوں والا۔ اس کے ساتھ باغ ہو گا اور آگ ہو گی۔ سو اس کی آگ تو باغ ہے اور اس کا باغ آگ ہے۔“ (علماء نے کہا: یہ بھی ایک آزمائش ہے اللہ پاک کی اپنے بندوں کے لیے تاکہ حق کو حق کرے اور جھوٹ کو جھوٹ، پھر اس کو رسوا کرے اور لوگوں میں اس کی عاجزی ظاہر کرے)۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں خوب جانتا ہوں دجال کے ساتھ کیا ہو گا۔ اس کے ساتھ دو نہریں ہوں گی بہتی ہوئیں ایک تو دیکھنے میں سفید پانی معلوم ہو گی اور دوسری دیکھنے میں بھڑکتی ہوئی آگ معلوم ہو گی، پھر جو کوئی یہ موقع پائے وہ اس نہر میں چلا جائے جو دیکھنے میں آگ معلوم ہوتی ہو اور اپنی آنکھ بند کر لے اور سر جھکا کر اس میں سے پئیے وہ ٹھنڈا پانی ہو گا اور دجال کی ایک آنکھ بالکل چٹ ہو گی۔ اس پر ایک پھلی ہو گی موٹی اور اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں کافر لکھا ہو گا جس کو ہر مؤمن پڑھ لے گا خواہ لکھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔“
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: ”دجال کے ساتھ پانی اور آگ ہو گی۔ لیکن آگ کیا ہے ٹھنڈا پانی اور پانی آگ ہے، تو مت ہلاک کرنا اپنے تیئں۔“ (اس کے پانی میں گھس کر)۔
سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے بھی یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
ربعی بن حراش نے کہا: میں عقبہ بن عمرو ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کے ساتھ سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کے پاس گیا۔ عقبہ نے کہا: سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے: تم مجھ سے بیان کرو جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دجال کے بارے میں سنا ہو، سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دجال نکلے گا اس کے ساتھ پانی ہو گا اور آگ ہو گی۔ تو جس کو لوگ پانی دیکھیں گے وہ آگ ہو گی جلانے والی اور جس کو لوگ آگ دیکھیں گے وہ پانی ہو گا سرد اور شیریں۔ پھر جو کوئی تم میں سے یہ موقع پائے اس کو چاہیے کہ جو آگ معلوم ہو اس میں گر پڑے۔ اس لیے کہ وہ شیریں پاکیزہ پانی ہے۔“ عقبہ نے کہا: سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو سچ کرنے کے لیے کہ میں نے بھی یہ حدیث سنی ہے۔
ربعی بن حراش سے روایت ہے، سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو مسعود رضی اللہ عنہ دونوں جمع ہوئے۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان سے زیادہ جانتا ہوں جو دجال کے ساتھ ہو گا۔ اس کے ساتھ ایک نہر ہو گی پانی کی اور ایک نہر آگ کی، پھر جس کو تم آگ دیکھو گے وہ پانی ہو گا اور جس کو تم پانی دیکھو گے وہ آگ ہے۔ سو جو کوئی تم میں سے یہ وقت پائے اور پانی پینا چاہے وہ اس نہر میں سے پئے جو آگ معلوم ہوتی ہے اس کو پانی پائے گا۔ سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی سنا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تم سے دجال کی ایک بات ایسی نہ کہوں جو کسی نبی نے اپنی امت سے نہ کہی؟ وہ کانا ہو گا اور اس کے ساتھ جنت اور دوزخ کی طرح دو چیزیں ہوں گی، پر جس کو وہ جنت کہے گا حقیقت میں وہ آگ ہو گی اور میں نے تم کو دجال سے ڈرایا جیسے نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ڈرایا۔“
سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صبح کو دجال کا ذکر کیا تو کبھی اس کو گھٹایا اور کبھی بڑھایا (یعنی کبھی اس کی تحقیر کی اور کبھی اس کے فتنہ کو بڑا کہا یا کبھی بلند آواز سے گفتگو کی اور کبھی پست آواز سے) یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ دجال ان درختوں کے جھنڈ میں آ گیا۔ جب ہم پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شام کو آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے چہروں پر اس کا اثر معلوم کیا (یعنی ڈر اور خوف)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا کیا حال ہے؟“ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے دجال کا ذکر کیا اور اس کو گھٹایا اور بڑھایا یہاں تک کہ ہم کو گمان ہو گیا کہ دجال ان درختوں میں کھجور کے جھنڈ میں موجود ہے (یعنی اس کا آنا بہت قریب ہے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ کو دجال کے سوا اور باتوں کا خوف تم پر زیادہ ہے (فتنوں کا، آپس میں لڑائیوں کا) اگر دجال نکلا اور میں تم لوگوں میں موجود ہوا تو تم سے پہلے میں اس کو الزام دوں گا اور تم کو اس کے شر سے بچاؤں گا اور اگر وہ نکلا اور میں تم لوگوں میں موجود نہ ہوا تو ہر مرد مسلمان اپنی طرف سے اس کو الزام دے گا اور حق تعالیٰ میرا خلیفہ اور نگہبان ہے ہر مسلمان پر۔ البتہ دجال تو جوان گھونگریالے بالوں والا ہے، اس کی آنکھ میں ٹینٹ ہے گویا کہ میں اس کی مشابہت دیتا ہوں عبدالعزیٰ بن قطن کے ساتھ (عبدالعزیٰ ایک کافر تھا)۔ سو جو شخص تم میں سے دجال کو پائے اس کو چاہیے کہ سورۂ کہف کے شروع کی آیتیں اس پر پڑھے۔ مقرر وہ نکلے گا شام اور عراق کی راہ سے تو خرابی ڈالے گا داہنے اور فساد اٹھائے گا بائیں۔ اے اللہ کے بندو! ایمان پر قائم رہنا۔“ اصحاب بولے: یا رسول اللہ! وہ زمین پر کتنی مدت رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چالیس دن تک۔ ایک دن ان میں سے ایک سال کے برابر ہو گا اور دوسرا ایک مہینے کے اور تیسرا ایک ہفتے کے اور باقی دن جیسے یہ تمہارے دن ہیں۔“ (تو ہمارے دنوں کے حساب سے دجال ایک برس دو مہینے چودہ دن تک رہے گا)۔ اصحاب نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جو دن سال بھر کے برابر ہو گا اس دن ہم کو ایک ہی دن کی نماز کفایت کرے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں تم اندازہ کر لینا اس دن میں بقدر اس کے یعنی جتنی دیر کے بعد ان دنوں میں نماز پڑھتے ہو اسی طرح اس دن بھی اندازہ کر کے پڑھ لینا .“ (اب تو گھڑیاں بھی موجود ہیں ان سے وقت کا اندازہ بخوبی ہو سکتا ہے۔ نووی رحمہ اللہ کہا: اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں صاف نہ فرماتے تو قیاس یہ تھا کہ اس دن صرف پانچ نمازیں پڑھنا ہی کافی ہوتیں کیونکہ ہر دن رات میں خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں مگر یہ قیاس نص سے ترک کیا گیا ہے۔ مترجم کہتا ہے کہ عرض تسعین میں جو خط استواء سے نوے درجہ پر واقع ہے اور جہاں کا افق معدل النہار ہے چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے کی رات ہوتی ہے تو ایک دن رات سال بھر کا ہوتا ہے پس اگر بالفرض انسان وہاں پہنچ جائے اور جئیے تو سال میں پانچ نمازیں پڑھنا ہوں گی) اصحاب نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی چال زمین میں کیونکر ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جیسے وہ مینہ جس کو ہوا پیچھے سے اڑاتی ہے سو وہ ایک قوم کے پاس آئے گا تو ان کو کفر کی طرف بلائے گا وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی بات مانیں گے تو آسمان کو حکم کرے گا وہ پانی برسائے گا اور زمین کو حکم کرے گا وہ ان کی گھاس اور اناج اگائے گی۔ تو شام کو گورو (جانور) آئیں گے پہلے سے زیادہ ان کے کوہان لمبے ہوں گے تھن کشادہ ہوں گے کوکھیں تنی ہوئیں (یعنی خوب موٹی ہو کر) پھر دجال دوسری قوم کے پاس آئے گا۔ ان کو بھی کفر کی طرف بلائے گا لیکن وہ اس کی بات کو نہ مانیں گے۔ تو ان کی طرف سے ہٹ جائے گا ان پر قحط سالی اور خشکی ہو گی۔ ان کے ہاتھوں میں ان کے مالوں میں سے کچھ نہ رہے گا اور دجال ویران زمین پر نکلے گا تو اس سے کہے گا: اے زمین! اپنے خزانے نکال۔ تو وہاں کے مال اور خزانے نکل کر اس کے پاس جمع ہو جائیں گے جیسے شہد کی مکھیاں بڑی مکھی کے گرد ہجوم کرتی ہیں۔ پھر دجال ایک جوان مرد کو بلائے گا اور اس کو تلوار سے مارے گا اور دو ٹکڑے کر ڈالے گا جیسا نشانہ دو ٹوک ہو جاتا ہے۔ پھر اس کو زندہ کر کے پکارے گا: سو وہ جوان سامنے آئے گا۔ چہرہ دمکتا ہوا اور ہنستا ہوا دجال اسی حال میں ہو گا کہ ناگاہ حق تعالیٰ عیسٰی بن مریم علیہ السلام کو بھیجے گا۔ عیسٰی علیہ السلام سفید مینار کے پاس اتریں گے دمشق کے شہر میں مشرق کی طرف زرد رنگ کا جوڑا پہنے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوئے۔ جب عیسٰی علیہ السلام اپنا سر جھکائیں گے تو پسینہ ٹپکے گا۔ اور جب اپنا سر اٹھائیں گے تو موتی کی طرح بوندیں بہیں گی۔ جس کافر کے پاس عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے اس کو ان کے دم کی بھاپ لگے گی وہ مر جائے گا اور ان کے دم کا اثر وہاں تک پہنچے گا جہاں تک ان کی نظر پہنچے گی۔ پھر عیسٰی علیہ السلام دجال کو تلاش کریں گے یہاں تک کہ پائیں گے اس کو باب لد پر (لد شام میں ایک پہاڑ کا نام ہے) سو اس کو قتل کریں گے۔ پھر عیسٰی علیہ السلام ان لوگوں کے پاس آئیں گے جن کو اللہ نے دجال سے بچایا۔ سو شفقت سے ان کے چہروں کو سہلائیں گے اور ان کو خبر کریں گے ان درجوں کی جو بہشت میں ان کے رکھے ہیں۔ وہ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسٰی علیہ السلام پر وحی بھیجے گا کہ میں نے اپنے ایسے بندے نکالے ہیں کہ کسی کو ان سے لڑنے کی طاقت نہیں تو پناہ میں لے جا میرے مسلمان بندوں کو طور کی طرف اور اللہ بھیجے گا یاجوج اور ماجوج کو اور وہ ہر ایک اونچائی سے نکل پڑیں گے۔ ان میں کے پہلے لوگ طبرستان کے دریا پر گزریں گے اور جتنا پانی اس میں ہو گا سب پی لیں گے۔ پھر ان میں کے پچھلے لوگ جب وہاں آئیں گے تو کہیں گے کبھی اس دریا میں پانی بھی تھا۔ پھر چلیں گے یہاں تک کہ اس پہاڑ تک پہنچیں گے جہاں درختوں کی کثرت ہے یعنی بیت المقدس کا پہاڑ تو وہ کہیں گے البتہ ہم زمین والوں کو قتل کر چکے۔ آؤ اب آسمان والوں کو بھی قتل کریں۔ تو اپنے تیر آسمان کی طرف چلائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان تیروں کو خون میں بھر کر لوٹا دے گا وہ سمجھیں گے کہ آسمان کے لوگ بھی مارے گئے۔ (یہ مضمون اس روایت میں نہیں ہے، اس کے بعد کی روایت سے لیا گیا ہے۔) اور اللہ کے پیغمبر عیسٰی علیہ السلام اور ان کے اصحاب گھرے رہیں گے یہاں تک کہ ان کے نزدیک بیل کا سر افضل ہو گا سو اشرفی سے آج تمہارے نزدیک (یعنی کھانے کی نہایت تنگی ہو گی) پھر اللہ کے پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی دعا کریں گے۔ سو اللہ تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کے لوگوں پر عذاب بھیجے گا۔ ان کی گردنوں میں کیڑا پیدا ہو گا تو صبح تک سب مر جائیں گے جیسے ایک آدمی مرتا ہے۔ پھر اللہ کے رسول عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی زمین میں اتریں گے توزمین میں ایک بالشت برابر جگہ ان سڑاند اور گندگی سے خالی نہ پائیں گے (یعنی تمام زمین پر ان کی سڑی ہوئی لاشیں پڑی ہوں گی) پھر اللہ تعالیٰ کے رسول عیسٰی علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو حق تعالیٰ چڑیوں کو بھیجے گا بڑے اونٹوں کی گردن کے برابر۔ وہ ان کو اٹھا لے جائیں گے اور ان کو پھینک دیں گے جہاں اللہ کا حکم ہو گا۔ پھر اللہ تعالیٰ ایسا پانی برسائے گا کہ کوئی گھر مٹی کا اور بالوں کا اس پانی سے باقی نہ رہے گا سو اللہ تعالیٰ زمین کو دھو ڈالے گا یہاں تک کہ زمین کو مثل حوض یا باغ یا صاف عورت کے کر دے گا پھر زمین کو حکم ہو گا کہ اپنے پھل جما اور اپنی برکت کو پھیر دے اور اس دن ایک انار کو ایک گروہ کھائے گا اور اس کے چھلکے کو بنگلہ سا بناکر اس کے سایہ میں بیٹھیں گے اور دودھ میں برکت ہو گی یہاں تک کہ دو دھار اونٹنی آدمیوں کے بڑے گروہ کو کفایت کرے گی اور دو دھار گائے ایک برادری کے لوگوں کو کفایت کرے گی اور دو دھار بکری ایک جدی لوگوں کو کفایت کرے گی۔ سو اسی حالت میں لوگ ہوں گے کہ یکایک حق تعالیٰ ایک پاک ہوا بھیجے گا کہ ان کی بغلوں کے نیچے لگے گی اور اثر کر جائے گی۔ تو ہر مؤمن اور مسلم کی روح کو قبض کرے گی اور برے بدذات لوگ باقی رہ جائیں گے۔ آپس میں بھڑیں گے گدھوں کی طرح ان پر قیامت قائم ہو گی۔“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے بھی یہ حدیث اسی سند سے مروی ہے، اس میں اس جملہ کے بعد کہ ”اس جگہ کسی موقعہ پر پانی تھا۔“ یہ اضافہ ہے کہ پھر وہ خمر کے پہاڑ کے پاس پہنچیں گے اور وہ بیت المقدس کا پہاڑ ہے تو وہ کہیں گے: تحقیق! ہم نے زمین والے سب کو قتل کر دیا۔ آؤ ہم آسمان والوں کو قتل کریں پھر وہ اپنے تیروں کو پھینکیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ ان پر ان کے تیروں کو خون آلود کر کے لوٹائے گا۔“ اور ابن حجر رحمہ اللہ کی روایت میں ہے کہ میں نے اپنے ایسے بندوں کو نازل کیا ہے، جنہیں قتل کرنے پر کسی کو قدرت حاصل نہیں ہے۔
|