الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْحَجِّ حج کے احکام و مسائل 8. باب تَحْرِيمِ الصَّيْدِ الْمَأُكُولِ الْبَرِّيِّ، وَمَا أَصْلُهُ ذٰلِكَ عَلَي الْمُحْرِمِ بِحَجُ أَوُ عمْرَةٍ أَوْ بِهِمَا باب: حج یا عمرہ یا ان دونوں کا احرام باندھنے والے پر خشکی کا شکار کرنے کی حرمت کا بیان۔
سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جنگلی گدھا ہدیہ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابواء یا ودان میں تھے (کہ مقام کا نام ہے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھیر دیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا ان کے چہرے کا ملال تو فرمایا: ”ہم نے کسی اور وجہ سے نہیں پھیرا اتنا ہے کہ ہم لوگ احرام باندھے ہوئے تھے۔“
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا ہے۔ مگر اس میں ہے کہ ”اگر ہم احرام باندھے ہوئے نہ ہوتے تو آپ کا ہدیہ قبول کرتے۔“
حکم نے کہا: سیدنا صعب رضی اللہ عنہ نے حمار وحشی کا پیر ہدیہ دیا اور شعبہ نے حکم سے روایت کیا کہ سرین حمار وحش کی، اس میں خون ٹپکتا تھا اور شعبہ کی روایت حبیب سے یوں ہے کہ ایک ٹکڑا حمار وحش کا ہدیہ دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھیر دیا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ آئے اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان کو یاد دلا کر کہا کہ تم نے کیونکر خبر دی تھی لحم صید کی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ دیا گیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھے ہوئے تھے؟ انہوں نے کہا: ہدیہ دیا گیا ایک عضو شکار کے گوشت کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھیر دیا اور فرمایا: ”ہم لوگ احرام باندھے ہوئے ہیں۔“
ابومحمد ابوقتادہ کے آزاد کردہ غلام کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ وہ کہتے تھے کہ نکلے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہاں تک کہ جب پہنچے ہم قاحہ میں (اور وہ ایک میدان ہے سقیا سے ایک منزل پر اور مدینہ سے تین منزل پر) اور بعض لوگ ہم میں سے محرم تھے اور بعض غیر محرم کہ اتنے میں میں نے اپنے یاورں کو دیکھا کہ وہ کسی چیز کو دیکھ رہے ہیں، جب میں نے نظر کی تو ایک گدھا وحشی تھا اور میں نے اپنے گھوڑے پر زین رکھا اور اپنا نیزہ لیا اور سوار ہوا اور میرا کوڑا گر پڑا اور میں نے اپنے یاروں سے کہا اور وہ محرم تھے کہ میرا کوڑا اٹھا دو۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم تمہاری کچھ مدد نہ کریں گے پھر میں نے اتر کر کوڑا لیا اور سوار ہوا اور اس گدھے تک اس کے پیچھے سے پہنچا اور وہ ٹیلے کے پیچھے تھا پھر اس کو نیزہ مارا اور اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور اپنے یاروں کے پاس لایا اور کسی نے کہا: کھاؤ اور کسی نے کہا: مت کھاؤ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے آگے تھے، سو میں نے اپنا گھوڑا بڑھایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ حلال ہے پس کھاؤ۔“
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کسی راہ میں مکہ کے اور وہ چند یاروں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے رہ گئے اور وہ غیر محرم تھے اور یار ان کے محرم پھر ایک وحشی گدھا دیکھا اور اپنے گھوڑے پر چڑھے اور یاروں سے کوڑا مانگا کسی نے نہ دیا، نیزہ مانگا کسی نے نہ دیا پھر انہوں نے آپ لے لیا اور گھوڑے کو دوڑایا اور گدھے کو مار لیا اور اصحاب میں سے کسی نے کھایا کسی نے نہیں پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تو ایک خوراک ہے کہ اللہ عزوجل نے تم کو دی۔“
عطاء نے سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ سے جنگلی گدھے کے بارہ میں وہی مضمون روایت کیا جو ابوالنضر سے اس کے اوپر گزرا مگر زید بن اسلم کی روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کہ اس کے گوشت میں سے کچھ ہے تمہارے پاس؟۔“
سیدنا عبداللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے حدیبیہ کے سال اور اصحاب رضی اللہ عنہم نے احرام باندھا تھا اور انہوں نے نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر لگی کہ دشمن غیقہ میں ہے اور آپ چلے اور سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اپنے یاروں کے ساتھ تھا کہ بعض لوگ میری طرف دیکھ کر ہنسنے لگے اور میں نے جو نظر کی تو میرے آگے ایک وحشی گدھا تھا اور میں نے اس پر حملہ کیا اور اس کو نیزہ مار کر روک دیا اور اپنے لوگوں سے مدد چاہی اور کسی نے (بسبب احرام کے) میری مدد نہ کہ پھر ہم نے اس کا گوشت کھایا اور خوف ہوا کہ ہم راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھوٹ نہ جائیں اس لیے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈتا چلا اور کبھی اپنے گھوڑے کو دوڑاتا اور کبھی قدم قدم چلاتا کہ ایک آدمی بنی غفار کا ملا اندھیری رات میں اور میں نے اس سے پوچھا کہ تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ملے؟ اس نے کہا کہ میں نے آپ کو (تعہن) میں چھوڑا ہے (نام ہے ایک مقام کا اور وہ پانی کی ایک نہر ہے سنتیا سے تین میل پر اور سقیا ایک گاؤں ہے مدینہ سے تین منزل مکہ کی راہ میں) اور وہ سقیا میں دوپہر کو ٹھہرنا چاہتے تھے غرض میں آپ سے ملا اور میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کے اصحاب، آپ پر سلام اور رحمت بھیجتے ہیں اور ان کو خوف ہے کہ دشمن ان کو آپ سے دور کر کے کاٹ نہ ڈالے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا انتظار کیجئے، سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا انتظار کیا پھر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے شکار کیا ہے اور اس میں سے کچھ میرے پاس بچا ہوا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھاؤ۔“ اور وہ سب احرام باندھے ہوئے تھے۔
سیدنا عبداللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی اپنے باپ سے کہ انہوں نے کہا کہ نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کو اور ہم نکلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور کہا سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور راہ لی اور اپنے بعض اصحاب سے فرمایا: اور انہیں میں ابوقتادہ بھی تھے: ”تم ساحل بحر کی راہ لو یہاں تک کہ ملو مجھ سے۔“ اور ان لوگوں نے ساحل بحر کی راہ لی پھر جب پھرے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تو ان تمام لوگوں نے احرام باندھ لیا سوائے ابوسیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ کے کہ انہوں نے احرام نہیں باندھا، غرض وہ راہ میں چلے جاتے تھے کہ انہوں نے چند وحشی گدھوں کو دیکھا اور سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے ان پر حملہ کیا اور ایک گدھے کی ان میں سے کونچیں کاٹیں اور سب یار ان کے اترے اس کا گوشت کھایا اور پھر کہا انہوں نے کہ ہم نے گوشت کھایا اور ہم محرم تھے اور باقی گوشت اس کا ساتھ لے لیا پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم نے احرام باندھ لیا ہے تھا اور ابوقتادہ نے احرام نہیں باندھا تھا پھر ہم نے چند وحشی گدھے دیکھے اور ابوقتادہ نے ان پر حملہ کر کے ایک کی کونچیں کاٹیں پھر ہم اترے اور ہم سب نے اس کا گوشت کھایا اور پھر کہا: ہم شکار کا گوشت کھا رہے ہیں اور احرام باندھے ہوئے ہیں اور باقی گوشت اس کا ہم لیتے آئے ہیں تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی نے تم سے اس کا حکم کیا تھا اس کی طرف اشارہ کیا تھا۔“ تو انہوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کھاؤ جو گوشت اس کا باقی ہے۔“
سیدنا عثمان بن عبداللہ سے اسی اسناد سے یہی مضمون مروی ہوا اور شیبان کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی نے اس کے شکار کا حکم کیا کہ اس پر حملہ کیا جائے یا اس کی طرف اشارہ کیا۔“ اور شعبہ کی روایت میں ہے کہ ”تم نے اشارہ کیا یا مدد کی یا تم نے شکار کیا؟“ شعبہ نے کہا: میں نہیں جانتا کہ ”مدد کی فرمایا یا شکار کیا۔“ باقی مضمون وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔
سیدنا عبداللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان کے باپ نے خبر دی کہ انہوں نے جہاد کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ حدیبیہ میں تو اور لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھ لیا سوا میرے اور میں نے ایک وحشی گدھا شکار کیا اور اپنے یاروں کو کھلایا اور وہ احرام باندھے ہوئے تھے، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور ان کو خبر دی کہ ہمارے پاس اس کا گوشت بچا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھاؤ۔“ اور وہ لوگ احرام باندھے ہوئے تھے۔
سیدنا عبداللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ سے روایت کی کہ وہ نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ سب لوگ محرم تھے اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہ غیر محرم اور بیان کی حدیث اور اس میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس اس میں سے کچھ ہے؟“ انہوں نے کہا: ہمارے پاس اس کا پیر ہے پھر لیا اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور کھایا۔
سیدنا عبداللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا ابوقتادہ چند محرم لوگوں میں تھے اور وہ احرام باندھے ہوئے نہ تھے اور وہ حدیث بیان کی اور اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آیا اشارہ کیا تم میں سے کسی نے اس کی طرف یا حکم کیا کسی طرح کا؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کھاؤ اس کو۔“
عبدالرحمٰن نے کہا کہ ہم طلحہ کے ساتھ تھے احرام باندھے ہوئے اور ایک پرندہ شکار کا ان کو ہدیہ دیا گیا (یعنی پکا ہوا) سو بعضوں نے ہم میں سے کھایا اور بعض نے پرہیز کیا پھر جب طلحہ سو رہے تھے، جاگے تو ان لوگوں کے موافق ہوئے جنہوں نے کھایا تھا اور کہا انہوں نے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ ایسا گوشت کھایا ہے۔
|