الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
84. باب أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً فِيهَا:
باب: جنتوں میں سب سے کم تر درجہ والے کا بیان۔
حدیث نمبر: 464
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا يحيى بن ابي بكير ، حدثنا زهير بن محمد ، عن سهيل بن ابي صالح ، عن النعمان بن ابي عياش ، عن ابي سعيد الخدري ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن ادنى اهل الجنة منزلة، رجل صرف الله وجهه عن النار قبل الجنة، ومثل له شجرة ذات ظل، فقال: اي رب، قدمني إلى هذه الشجرة، اكون في ظلها "، وساق الحديث بنحو حديث ابن مسعود، ولم يذكر، فيقول: يا ابن آدم، ما يصريني منك، إلى آخر الحديث وزاد فيه، ويذكره الله: سل كذا وكذا، فإذا انقطعت به الاماني، قال الله: هو لك وعشرة امثاله، قال: ثم يدخل بيته، فتدخل عليه زوجتاه من الحور العين، فتقولان: الحمد لله الذي احياك لنا واحيانا لك، قال: فيقول: ما اعطي احد مثل ما اعطيت.حَدّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً، رَجُلٌ صَرَفَ اللَّهُ وَجْهَهُ عَنَ النَّارِ قِبَلَ الْجَنَّةِ، وَمَثَّلَ لَهُ شَجَرَةً ذَاتَ ظِلٍّ، فَقَالَ: أَيْ رَبِّ، قَدِّمْنِي إِلَى هَذِهِ الشَّجَرَةِ، أَكُونُ فِي ظِلِّهَا "، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ، فَيَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ، مَا يَصْرِينِي مِنْكَ، إِلَى آخِرِ الْحَدِيثِ وَزَادَ فِيهِ، وَيُذَكِّرُهُ اللَّهُ: سَلْ كَذَا وَكَذَا، فَإِذَا انْقَطَعَتْ بِهِ الأَمَانِيُّ، قَالَ اللَّهُ: هُوَ لَكَ وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ، قَالَ: ثُمَّ يَدْخُلُ بَيْتَهُ، فَتَدْخُلُ عَلَيْهِ زَوْجَتَاهُ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ، فَتَقُولَانِ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَاكَ لَنَا وَأَحْيَانَا لَكَ، قَالَ: فَيَقُولُ: مَا أُعْطِيَ أَحَدٌ مِثْلَ مَا أُعْطِيتُ.
‏‏‏‏ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے کم درجے کا جنتی وہ ہے جس کا منہ اللہ تعالیٰ جہنم کی طرف سے پھیر کر جنت کی طرف کر دے گا اور اس کو ایک درخت دکھا دے گا۔ سایہ دار وہ کہے گا: اے رب میرے! مجھے اس درخت کے پاس لے جا میں اس کے سایہ میں رہوں گا۔ اور بیان کیا حدیث کو اسی طرح جيسے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔ مگر اس میں یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! تیرے سوال کو کون سی چیز تمام کرے گی آخر تک۔ اتنا زیادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو یاد دلائے گا فلاں فلاں چیز کی آرزو کر یہاں تک کہ جب اس کی سب آرزوئیں ختم ہو جائیں گی، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ تو یہ سب لے اور دس حصے ان سے زیادہ لے پھر وہ اپنے گھر میں جائے گا اور حوروں میں سے دونوں بیبیاں اس کے پاس آئیں گی اور کہیں گی: شکر اللہ کا جس نے تجھ کو جلایا ہمارے لئے اور ہم کو جلایا تیرے لئے پھر وہ کہے گا: کسی کو اللہ نے اتنا زیادہ نہیں دیا جتنا مجھ کو دیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (4392)»
حدیث نمبر: 465
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا سعيد بن عمرو الاشعثي ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن مطرف ، وابن ابجر ، عن الشعبي ، قال: سمعت المغيرة بن شعبة رواية إن شاء الله. ح وحدثنا ابن ابي عمر ، حدثنا سفيان ، حدثنا مطرف بن طريف ، وعبد الملك بن سعيد، سمعا الشعبي يخبر، عن المغيرة بن شعبة ، قال: سمعته على المنبر يرفعه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: وحدثني بشر بن الحكم واللفظ له، حدثنا سفيان بن عيينة ، حدثنا مطرف ، وابن ابجر ، سمعا الشعبي ، يقول: سمعت المغيرة بن شعبة يخبر به الناس على المنبر، قال سفيان: رفعه احدهما، اراه ابن ابجر، قال: " سال موسى ربه: ما ادنى اهل الجنة منزلة؟ قال: هو رجل يجيء بعد ما ادخل اهل الجنة الجنة، فيقال له: ادخل الجنة، فيقول: اي رب كيف؟ وقد نزل الناس منازلهم واخذوا اخذاتهم، فيقال له: اترضى ان يكون لك مثل ملك ملك من ملوك الدنيا؟ فيقول: رضيت رب، فيقول: لك ذلك، ومثله، ومثله، ومثله، ومثله، فقال: في الخامسة رضيت رب، فيقول: هذا لك وعشرة امثاله، ولك ما اشتهت نفسك ولذت عينك، فيقول: رضيت رب، قال: رب فاعلاهم منزلة، قال: اولئك الذين اردت غرست كرامتهم بيدي وختمت عليها، فلم تر عين، ولم تسمع اذن، ولم يخطر على قلب بشر، قال: ومصداقه في كتاب الله عز وجل فلا تعلم نفس ما اخفي لهم من قرة اعين سورة السجدة آية 17 الآية ".حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَمْرٍو الأَشْعَثِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، وَابْنِ أَبْجَرَ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ رِوَايَةً إِنْ شَاءَ اللَّهُ. ح وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا مُطَرِّفُ بْنُ طَرِيفٍ ، وَعَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ سَعِيدٍ، سمعا الشعبي يخبر، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُهُ عَلَى الْمِنْبَرِ يَرْفَعُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وحَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ ، وَابْنُ أَبْجَرَ ، سمعا الشعبي ، يَقُولُ: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ يُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ عَلَى الْمِنْبَرِ، قَالَ سُفْيَانُ: رَفَعَهُ أَحَدُهُمَا، أُرَاهُ ابْنَ أَبْجَرَ، قَالَ: " سَأَلَ مُوسَى رَبَّهُ: مَا أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً؟ قَالَ: هُوَ رَجُلٌ يَجِيءُ بَعْدَ مَا أُدْخِلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، فَيُقَالُ لَهُ: ادْخُلِ الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ كَيْفَ؟ وَقَدْ نَزَلَ النَّاسُ مَنَازِلَهُمْ وَأَخَذُوا أَخَذَاتِهِمْ، فَيُقَالُ لَهُ: أَتَرْضَى أَنْ يَكُونَ لَكَ مِثْلُ مُلْكِ مَلِكٍ مِنْ مُلُوكِ الدُّنْيَا؟ فَيَقُولُ: رَضِيتُ رَبِّ، فَيَقُولُ: لَكَ ذَلِكَ، وَمِثْلُهُ، وَمِثْلُهُ، وَمِثْلُهُ، وَمِثْلُهُ، فَقَالَ: فِي الْخَامِسَةِ رَضِيتُ رَبِّ، فَيَقُولُ: هَذَا لَكَ وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ، وَلَكَ مَا اشْتَهَتْ نَفْسُكَ وَلَذَّتْ عَيْنُكَ، فَيَقُولُ: رَضِيتُ رَبِّ، قَالَ: رَبِّ فَأَعْلَاهُمْ مَنْزِلَةً، قَالَ: أُولَئِكَ الَّذِينَ أَرَدْتُ غَرَسْتُ كَرَامَتَهُمْ بِيَدِي وَخَتَمْتُ عَلَيْهَا، فَلَمْ تَرَ عَيْنٌ، وَلَمْ تَسْمَعْ أُذُنٌ، وَلَمْ يَخْطُرْ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ، قَالَ: وَمِصْدَاقُهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ سورة السجدة آية 17 الآيَة ".
‏‏‏‏ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے پوچھا: سب سے کم درجہ والا جنتی کون ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ شخص ہے جو آئے گا سب جنتیوں کے جنت میں جانے کے بعد، اس سے کہا جائے گا،جا جنت میں جا۔ وہ کہے گا: اے رب میرے! کیسے جاؤں؟ وہاں تو سب لوگوں نے اپنے اپنے ٹھکانے کر لئے اور اپنی جگہیں بنا لیں اس سے کہا جائے گا۔ کیا تو راضی ہے اس بات پر کہ تجھے اتنا ملک ملے جتنا دنیا کے ایک بادشاہ کے پاس تھا وہ کہے گا میں راضی ہوں اے رب میرے! حکم ہو گا جا اتنا ملک ہم نے تجھے دیا اور اتنا ہی اور۔ اور اتنا ہی اور۔ اور اتنا ہی اور۔ اور اتنا ہی اور پانچویں بار میں وہ کہے گا میں راضی ہوں اے میرے رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو یہ بھی لے اور دس حصے اس سے زیادہ لے اور جو تیرا جی چاہے اور جو تجھے بھلا لگے دیکھنے میں وہ لے۔ وہ کہے گا: میں راضی ہو گیا اے رب میرے! پھر موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا: سب سے بڑا درجے والا جنتی کون ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ تو وہ لوگ ہیں جن کو میں نے خود چنا اور ان کی بزرگی اور عزت کو میں نے اپنے ہاتھ سے جمایا اور اس پر مہر کر دی، کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، نہ کسی کان نے سنا نہ کسی کے دل پر گزرا (جو ان کے لئے تیار ہے) اور اس کی تصدیق کرتا ہے وہ جو کلام اللہ میں ہے «فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ» یعنی کوئی نہیں جانتا جو چھپا کر رکھا گیا ہے ان کے لئے ان کی آنکھ کی ٹھنڈک اخیر تک۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذي في ((جامعه)) في التفسير، باب: ومن سورة السجدة وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (3198) انظر ((التحفة)) برقم (11503) 329»
حدیث نمبر: 466
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو كريب ، حدثنا عبيد الله الاشجعي ، عن عبد الملك بن ابجر ، قال: سمعت الشعبي ، يقول: سمعت المغيرة بن شعبة ، يقول على المنبر: إن موسى عليه السلام، سال الله عز وجل عن اخس اهل الجنة منها حظا، وساق الحديث بنحوه.حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ الأَشْجَعِيُّ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ ، يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ: إِنَّ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، سَأَلَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلّ عَنْ أَخَسِّ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنْهَا حَظًّا، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِهِ.
‏‏‏‏ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ منبر پر کہتے تھے موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا: سب سے کم درجے کا جنتی کون ہے؟ پھر بیان کیا حدیث کو اسی طرح جیسے اوپر گزری۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (464)»
حدیث نمبر: 467
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا الاعمش ، عن المعرور بن سويد ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني لاعلم آخر اهل الجنة دخولا الجنة، وآخر اهل النار خروجا منها، رجل يؤتى به يوم القيامة، فيقال: اعرضوا عليه صغار ذنوبه، وارفعوا عنه كبارها، فتعرض عليه صغار ذنوبه، فيقال: عملت يوم، كذا، وكذا، كذا، وكذا، وعملت يوم، كذا، وكذا، كذا، وكذا؟ فيقول: نعم، لا يستطيع ان ينكر، وهو مشفق من كبار ذنوبه ان تعرض عليه، فيقال له: فإن لك مكان كل سيئة حسنة، فيقول: رب قد عملت اشياء لا اراها ها هنا "، فلقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحك، حتى بدت نواجذه.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَأَعْلَمُ آخِرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا الْجَنَّةَ، وَآخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا مِنْهَا، رَجُلٌ يُؤْتَى بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُقَالُ: اعْرِضُوا عَلَيْهِ صِغَارَ ذُنُوبِهِ، وَارْفَعُوا عَنْهُ كِبَارَهَا، فَتُعْرَضُ عَلَيْهِ صِغَارُ ذُنُوبِهِ، فَيُقَالُ: عَمِلْتَ يَوْمَ، كَذَا، وَكَذَا، كَذَا، وَكَذَا، وَعَمِلْتَ يَوْمَ، كَذَا، وَكَذَا، كَذَا، وَكَذَا؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ، لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُنْكِرَ، وَهُوَ مُشْفِقٌ مِنْ كِبَارِ ذُنُوبِهِ أَنْ تُعْرَضَ عَلَيْهِ، فَيُقَالُ لَهُ: فَإِنَّ لَكَ مَكَانَ كُلِّ سَيِّئَةٍ حَسَنَةً، فَيَقُولُ: رَبِّ قَدْ عَمِلْتُ أَشْيَاءَ لَا أَرَاهَا هَا هُنَا "، فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحِكَ، حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ.
‏‏‏‏ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں جانتا ہوں اس شخص کو جو سب کے بعد جنت میں جائے گا اور سب کے بعد دوزخ سے نکلے گا۔ وہ ایک شخص ہو گا جو لایا جائے گا قیامت کے دن۔ پھر حکم ہو گا پیش کرو اس کے ہلکے گناہ اور مت پیش کرو اس کے بھاری گناہ تو پیش کئے جائیں گے اس پر ہلکے گناہ، اس کے اور کہا جائے گا: فلاں روز تو نے ایسا کام کیا۔ اور فلاں روز یہ کام کیا، وہ قبول کرے گا۔ انکار نہ کر سکے گا اور ڈرے گا اپنے بھاری گناہوں سے۔ کہیں وہ پیش نہ ہوں۔ حکم ہو گا ہم نے تجھے ہر ایک گناہ کے بدلے ایک نیکی دی۔ وہ کہے گا: مالک میرے! میں نے اور بھی کچھ کام کئے ہیں گناہ کے۔ جن کو میں یہاں نہیں پاتا۔ راوی نے کہا: میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھیں کھل گئیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذي في ((جامعه)) في صفة جهنم، باب: ما جاء ان للنار نفسين، وما ذكر من يخرج من النار من اهل التوحيد وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (2596) انظر ((التحفة)) برقم (11983)»
حدیث نمبر: 468
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابن نمير ، حدثنا ابو معاوية ووكيع . ح وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا وكيع . ح وحدثنا ابو كريب ، حدثنا ابو معاوية كلاهما، عن الاعمش ، بهذا الإسناد.وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَوَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ كِلَاهُمَا، عَنِ الأَعْمَشِ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ.
‏‏‏‏ اعمش کی سند سے بھی یہ روایت آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (466)»
حدیث نمبر: 469
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني عبيد الله بن سعيد ، وإسحاق بن منصور كلاهما، عن روح ، قال عبيد الله، حدثنا روح بن عبادة القيسي، حدثنا ابن جريج ، قال: اخبرني ابو الزبير ، انه سمع جابر بن عبد الله ، " يسال عن الورود، فقال: نجيء نحن يوم القيامة عن كذا، وكذا، انظر اي ذلك فوق الناس، قال: فتدعى الامم باوثانها، وما كانت تعبد الاول فالاول، ثم ياتينا ربنا بعد ذلك، فيقول: من تنظرون؟ فيقولون: ننظر ربنا، فيقول: انا ربكم، فيقولون: حتى ننظر إليك، فيتجلى لهم يضحك، قال: فينطلق بهم، ويتبعونه، ويعطى كل إنسان منهم منافق، او مؤمن نورا، ثم يتبعونه وعلى جسر جهنم كلاليب، وحسك تاخذ من شاء الله، ثم يطفا نور المنافقين، ثم ينجو المؤمنون، فتنجو اول زمرة وجوههم، كالقمر ليلة البدر سبعون الفا لا يحاسبون، ثم الذين يلونهم كاضوإ نجم في السماء، ثم كذلك، ثم تحل الشفاعة، ويشفعون حتى يخرج من النار من قال: لا إله إلا الله، وكان في قلبه من الخير ما يزن شعيرة، فيجعلون بفناء الجنة ويجعل اهل الجنة يرشون عليهم الماء، حتى ينبتوا نبات الشيء في السيل ويذهب حراقه، ثم يسال حتى تجعل له الدنيا وعشرة امثالها معها ".حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، وإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ كلاهما، عَنْ رَوْحٍ ، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ الْقَيْسِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، " يُسْأَلُ عَنِ الْوُرُودِ، فَقَالَ: نَجِيءُ نَحْنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَنْ كَذَا، وَكَذَا، انْظُرْ أَيْ ذَلِكَ فَوْقَ النَّاسِ، قَالَ: فَتُدْعَى الأُمَمُ بِأَوْثَانِهَا، وَمَا كَانَتْ تَعْبُدُ الأَوَّلُ فَالأَوَّلُ، ثُمَّ يَأْتِينَا رَبُّنَا بَعْدَ ذَلِكَ، فَيَقُولُ: مَنْ تَنْظُرُونَ؟ فَيَقُولُونَ: نَنْظُرُ رَبَّنَا، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: حَتَّى نَنْظُرَ إِلَيْكَ، فَيَتَجَلَّى لَهُمْ يَضْحَكُ، قَالَ: فَيَنْطَلِقُ بِهِمْ، وَيَتَّبِعُونَهُ، وَيُعْطَى كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ مُنَافِقٍ، أَوْ مُؤْمِنٍ نُورًا، ثُمَّ يَتَّبِعُونَهُ وَعَلَى جِسْرِ جَهَنَّمَ كَلَالِيبُ، وَحَسَكٌ تَأْخُذُ مَنْ شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ يُطْفَأُ نُورُ الْمُنَافِقِينَ، ثُمَّ يَنْجُو الْمُؤْمِنُونَ، فَتَنْجُو أَوَّلُ زُمْرَةٍ وُجُوهُهُمْ، كَالْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ سَبْعُونَ أَلْفًا لَا يُحَاسَبُونَ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ كَأَضْوَإِ نَجْمٍ فِي السَّمَاءِ، ثُمَّ كَذَلِكَ، ثُمَّ تَحِلُّ الشَّفَاعَةُ، وَيَشْفَعُونَ حَتَّى يَخْرُجَ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ شَعِيرَةً، فَيُجْعَلُونَ بِفِنَاءِ الْجَنَّةِ وَيَجْعَلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ يَرُشُّونَ عَلَيْهِمُ الْمَاءَ، حَتَّى يَنْبُتُوا نَبَاتَ الشَّيْءِ فِي السَّيْلِ وَيَذْهَبُ حُرَاقُهُ، ثُمَّ يَسْأَلُ حَتَّى تُجْعَلَ لَهُ الدُّنْيَا وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهَا مَعَهَا ".
‏‏‏‏ ابوالزبیر نے سنا سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے۔ ان سے پوچھا گیا: لوگوں کے آنے کا حال قیامت کے دن۔ انہوں نے کہا۔ ہم آئیں گے قیامت کے دن اس طرح سے دیکھ یعنی یہ اوپر سب آدمیوں کے، پھر بلائی جائیں گی امتیں اپنے اپنے بتوں اور معبودوں کے ساتھ پہلی امت پھر دوسری امت بعد اس کے ہمارا پروردگار آئے گا اور فرمائے گا: تم کس کو دیکھ رہے ہو؟ (یعنی امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمائے گا۔) وہ کہیں گے: ہم اپنے پروردگار کو دیکھ رہے ہیں (یعنی اس کے منتظر ہیں) پروردگار فرمائے گا: میں تمہارا مالک ہوں وہ کہیں گے: ہم تجھ کو دیکھیں (تو معلوم ہو) پھر دکھائی دے گا پروردگار ان کو ہنستا ہوا اور ان کے ساتھ چلے گا۔ اور لوگ سب اس کے پیچھے ہوں گے اور ہر ایک آدمی کو خواہ وہ منافق ہو یا مؤمن ایک نور ملے گا لوگ اس کے ساتھ ہوں گے اور جہنم کے پل پر آنکڑے اور کانٹے ہوں گے۔ وہ پکڑ لیں گے جن کو اللہ چاہے گا۔ بعد اس کے منافقوں کا نور بجھ جائے گا اور مؤمن نجات پائیں گے۔ تو پہلا گروہ مؤمنوں کا ان کے منہ چودھویں رات کے چاند کے سے ہوں گے، ستر ہزار آدمیوں کا ہو گا۔ جس سے نہ حساب ہو گا، نہ کتاب ان کے بعد کے گروہ خوب چمکتے تارے کی طرح ہوں گے۔ پھر ان کے بعد کا ان سے اتر کر یہاں تک کہ شفاعت کا وقت آئے گا اور لوگ شفاعت کریں گے۔ اور جہنم سے نکالا جائے گا۔ وہ شخص بھی جس نے «لا الهٰ الا الله» کہا تھا اور اس کے دل میں ایک جو برابر نیکی اور بہتری تھی۔ یہ لوگ جنت کے آنگن میں ڈال ديئے جائیں گے اور جنتی لوگ ان پر پانی چھڑکیں گے۔ وہ اس طرح پنپیں گے جیسے جھاڑ پانی کے بہاؤ میں پنپتا ہے اور ان کی سوزش اور جلن بالکل جاتی رہے گی۔ پھر وہ سوال کریں گے اللہ سے اور ہر ایک کو اتنا ملے گا جیسے ساری دنیا بلکہ دس دنیا کے برابر۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (2841)»
حدیث نمبر: 470
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن عمرو سمع جابرا ، يقول: سمعه من النبي صلى الله عليه وسلم باذنه، يقول: " إن الله يخرج ناسا من النار، فيدخلهم الجنة ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرٍو سَمِعَ جَابِرًا ، يَقُولُ: سَمِعَهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأُذُنِهِ، يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ يُخْرِجُ نَاسًا مِنَ النَّارِ، فَيُدْخِلَهُمُ الْجَنَّةَ ".
‏‏‏‏ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے سنا اپنے کانوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: بے شک اللہ تعالیٰ چند لوگوں کو دوزخ سے نکال کر جنت میں لے جائے گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (2545)»
حدیث نمبر: 471
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو الربيع ، حدثنا حماد بن زيد ، قال: قلت لعمرو بن دينار : اسمعت جابر بن عبد الله يحدث، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله يخرج قوما من النار بالشفاعة "، قال: نعم.حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَمْرِو بْنِ دِينَار : أَسَمِعْتَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ يُخْرِجُ قَوْمًا مِنَ النَّارِ بِالشَّفَاعَةِ "، قَالَ: نَعَمْ.
‏‏‏‏ سیدنا حماد بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا عمرو بن دینار رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا تم نے سنا ہے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو حدیث بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو جہنم سے نکالے گا شفاعت کی وجہ سے۔ انہوں نے کہا: ہاں سنا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الرقاق، باب صفة الجنة والنار برقم (6558) انظر ((التحفة)) برقم (2514)»
حدیث نمبر: 472
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حجاج بن الشاعر ، حدثنا ابو احمد الزبيري ، حدثنا قيس بن سليم العنبري ، قال: حدثني يزيد الفقير ، حدثنا جابر بن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن قوما يخرجون من النار، يحترقون فيها، إلا دارات وجوههم، حتى يدخلون الجنة ".حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ سُلَيْمٍ الْعَنْبَرِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ الْفَقِيرُ ، حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ قَوْمًا يُخْرَجُونَ مِنَ النَّارِ، يَحْتَرِقُونَ فِيهَا، إِلَّا دَارَاتِ وُجُوهِهِمْ، حَتَّى يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ ".
‏‏‏‏ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کچھ لوگ جہنم میں جل کر وہاں سے نکلیں گے اور جنت میں جائیں گے ان سب کا بدن جل گیا ہو گا۔ سوا منہ کے چکر کے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (3140)»
حدیث نمبر: 473
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا حجاج بن الشاعر ، حدثنا الفضل بن دكين ، حدثنا ابو عاصم يعني محمد بن ابي ايوب ، قال: حدثني يزيد الفقير ، قال: " كنت قد شغفني راي من راي الخوارج، فخرجنا في عصابة ذوي عدد، نريد ان نحج، ثم نخرج على الناس، قال: فمررنا على المدينة، فإذا جابر بن عبد الله يحدث القوم، جالس إلى سارية، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فإذا هو قد ذكر الجهنميين، قال: فقلت له: يا صاحب رسول الله، ما هذا الذي تحدثون! والله يقول: إنك من تدخل النار فقد اخزيته سورة آل عمران آية 192، و كلما ارادوا ان يخرجوا منها اعيدوا فيها سورة السجدة آية 20، فما هذا الذي تقولون؟ قال: فقال: اتقرا القرآن؟ قلت: نعم، قال: فهل سمعت بمقام محمد صلى الله عليه وسلم يعني الذي يبعثه الله فيه؟ قلت: نعم، قال: فإنه مقام محمد صلى الله عليه وسلم المحمود الذي يخرج الله به من يخرج، قال: ثم نعت وضع الصراط، ومر الناس عليه، قال: واخاف ان لا اكون احفظ ذاك، قال: غير انه قد زعم، ان قوما يخرجون من النار، بعد ان يكونوا فيها، قال: يعني فيخرجون كانهم عيدان السماسم، قال: فيدخلون نهرا من انهار الجنة، فيغتسلون فيه فيخرجون كانهم القراطيس " فرجعنا، قلنا: ويحكم اترون الشيخ يكذب على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فرجعنا، فلا والله ما خرج منا غير رجل واحد، او كما قال ابو نعيم.وحَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ يَعْنِي مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي أَيُّوبَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ الْفَقِيرُ ، قَالَ: " كُنْتُ قَدْ شَغَفَنِي رَأْيٌ مِنْ رَأْيِ الْخَوَارِجِ، فَخَرَجْنَا فِي عِصَابَةٍ ذَوِي عَدَدٍ، نُرِيدُ أَنْ نَحُجَّ، ثُمَّ نَخْرُجَ عَلَى النَّاسِ، قَالَ: فَمَرَرْنَا عَلَى الْمَدِينَةِ، فَإِذَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ، جَالِسٌ إِلَى سَارِيَةٍ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَإِذَا هُوَ قَدْ ذَكَرَ الْجَهَنَّمِيِّينَ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: يَا صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ، مَا هَذَا الَّذِي تُحَدِّثُونَ! وَاللَّهُ يَقُولُ: إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ سورة آل عمران آية 192، وَ كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِيدُوا فِيهَا سورة السجدة آية 20، فَمَا هَذَا الَّذِي تَقُولُونَ؟ قَالَ: فَقَالَ: أَتَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَهَلْ سَمِعْتَ بِمَقَامِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم يَعْنِي الَّذِي يَبْعَثُهُ اللَّهُ فِيهِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّهُ مَقَامُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَحْمُودُ الَّذِي يُخْرِجُ اللَّهُ بِهِ مَنْ يُخْرِجُ، قَالَ: ثُمَّ نَعَتَ وَضْعَ الصِّرَاطِ، وَمَرَّ النَّاسِ عَلَيْهِ، قَالَ: وَأَخَافُ أَنْ لَا أَكُونَ أَحْفَظُ ذَاكَ، قَالَ: غَيْرَ أَنَّهُ قَدْ زَعَمَ، أَنَّ قَوْمًا يَخْرُجُونَ مِنَ النَّارِ، بَعْدَ أَنْ يَكُونُوا فِيهَا، قَالَ: يَعْنِي فَيَخْرُجُونَ كَأَنَّهُمْ عِيدَانُ السَّمَاسِمِ، قَالَ: فَيَدْخُلُونَ نَهَرًا مِنْ أَنْهَارِ الْجَنَّةِ، فَيَغْتَسِلُونَ فِيهِ فَيَخْرُجُونَ كَأَنَّهُمُ الْقَرَاطِيسُ " فَرَجَعْنَا، قُلْنَا: وَيْحَكُمْ أَتُرَوْنَ الشَّيْخَ يَكْذِبُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَجَعْنَا، فَلَا وَاللَّهِ مَا خَرَجَ مِنَّا غَيْرُ رَجُلٍ وَاحِدٍ، أَوْ كَمَا قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ.
‏‏‏‏ یزید بن صہیب ابو عثمان فقیر سے روایت ہے، میرے دل میں خارجیوں کی ایک بات کھب گئی تھی (وہ یہ کہ کبیرہ گناہ کرنے والا ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ اور جو جہنم میں جائے گا وہ پھر وہاں سے نہ نکلے گا) تو ہم نکلے ایک بڑی جماعت کے ساتھ اس ارادے سے کہ حج کریں، پھر خارجیوں کا مذہب پھیلائیں جب ہم مدینے میں پہنچے دیکھا تو سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ایک ستون کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کو حدیثیں سنا رہے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی، انہوں نے یکایک ذکر کیا دوزخیوں کا۔ میں نے کہا: اے صحابی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے، تم کیا حدیث بیان کرتے ہو؟ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے۔ (اے رب ہمارے) بے شک تو جس کو جہنم میں لے گیا تو نے اس کو رسوا کیا اور فرماتا ہے: جہنم کے لوگ جب وہاں سے نکلنا چاہیں گے تو پھر اس میں ڈال دیئے جائیں گے۔ اب تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا: تو نے قرآن پڑھا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، انہوں نے پھر کہا: تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام سنا ہے یعنی وہ مقام جو اللہ ان کو قیامت کے روز عنایت فرمائے گا (جس کا بیان اس آیت میں ہے «عسي أن يبعثك») میں نے کہا: ہاں میں نے سنا ہے انہوں نے کہا: پھر وہی مقام محمود ہے، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نکالے گا جہنم سے ان لوگوں کو جن کو چاہے گا۔ (پھر بیان کیا) انہوں نے پل صراط کا حال اور لوگوں کے گزرنے کا اس پل پر سے اور مجھے ڈر ہے۔ یاد نہ رہا ہو یہ مگر انہوں نے یہ کہا: کہ کچھ لوگ دوزخ سے نکالے جائیں گے۔ اس میں جانے کے بعد اور اس طرح سے نکلیں گے جیسے آبنوس کی لکڑیاں۔ (سیاہ جل بھن کر) پھر جنت کی ایک نہر میں جائیں گے اور وہاں غسل کریں گے اور کاغذ کی طرح سفید ہو کر نکلیں گے، یہ سن کر ہم لوٹے اور کہا ہم نے۔ خرابی ہو تمہاری کیا یہ بوڑھا جھوٹ باندھتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر (یعنی وہ ہر گز جھوٹ نہیں بولتا پھر تمہارا مذہب غلط نکلا) اور ہم سب پھر گئے اپنے مذہب سے مگر ایک شخص نہ پھرا۔ ایسا ہی کہا ابونعیم (فضل بن دکین) نے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (3140)»
حدیث نمبر: 474
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا هداب بن خالد الازدي ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ابي عمران ، وثابت ، عن انس بن مالك ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " يخرج من النار اربعة، فيعرضون على الله، فيلتفت احدهم، فيقول: اي رب، إذ اخرجتني منها فلا تعدني فيها، فينجيه الله منها ".حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ الأَزْدِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ ، وَثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ أَرْبَعَةٌ، فَيُعْرَضُونَ عَلَى اللَّهِ، فَيَلْتَفِتُ أَحَدُهُمْ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، إِذْ أَخْرَجْتَنِي مِنْهَا فَلَا تُعِدْنِي فِيهَا، فَيُنْجِيهِ اللَّهُ مِنْهَا ".
‏‏‏‏ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوزخ سے چار آدمی نکالے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے سامنے کئے جائیں گے ان میں سے ایک جہنم کی طرف دیکھ کر کہے گا: اے مالک میرے! جب تو نے مجھ کو نجات دی اس سے تو اب پھر مت لے جا اس میں۔ اللہ تعالیٰ اس کو نجات دے گا جہنم سے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (347 و 1073)»
حدیث نمبر: 475
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا ابو كامل فضيل بن حسين الجحدري ومحمد بن عبيد الغبري واللفظ لابي كامل، قال: حدثنا ابو عوانة ، عن قتادة ، عن انس بن مالك ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يجمع الله الناس يوم القيامة فيهتمون لذلك، وقال ابن عبيد: فيلهمون لذلك، فيقولون: لو استشفعنا على ربنا حتى يريحنا من مكاننا هذا، قال: فياتون آدم عليه السلام، فيقولون: انت آدم ابو الخلق، خلقك الله بيده ونفخ فيك من روحه، وامر الملائكة فسجدوا لك، اشفع لنا عند ربك حتى يريحنا من مكاننا هذا، فيقول: لست هناكم، فيذكر خطيئته التي اصاب، فيستحيي ربه منها، ولكن ائتوا نوحا اول رسول بعثه الله، قال: فياتون نوحا عليه السلام، فيقول: لست هناكم، فيذكر خطيئته التي اصاب، فيستحيي ربه منها، ولكن ائتوا إبراهيم عليه السلام الذي اتخذه الله خليلا، فياتون إبراهيم عليه السلام، فيقول: لست هناكم، ويذكر خطيئته التي اصاب، فيستحيي ربه منها، ولكن ائتوا موسى عليه السلام الذي كلمه الله، واعطاه التوراة، قال: فياتون موسى عليه السلام، فيقول: لست هناكم، ويذكر خطيئته التي اصاب، فيستحيي ربه منها، ولكن ائتوا عيسى روح الله وكلمته، فياتون عيسى روح الله وكلمته، فيقول: لست هناكم، ولكن ائتوا محمدا صلى الله عليه وسلم عبدا، قد غفر له ما تقدم من ذنبه وما تاخر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فياتوني، فاستاذن على ربي فيؤذن لي، فإذا انا رايته، وقعت ساجدا فيدعني ما شاء الله، فيقال: يا محمد، ارفع راسك، قل: تسمع سل تعطه، اشفع تشفع، فارفع راسي، فاحمد ربي بتحميد يعلمنيه ربي، ثم اشفع، فيحد لي حدا فاخرجهم من النار، وادخلهم الجنة، ثم اعود فاقع ساجدا، فيدعني ما شاء الله، ان يدعني، ثم يقال: ارفع راسك يا محمد، قل: تسمع سل تعطه، اشفع تشفع، فارفع راسي، فاحمد ربي بتحميد يعلمنيه، ثم اشفع، فيحد لي حدا، فاخرجهم من النار، وادخلهم الجنة، قال: فلا ادري في الثالثة او في الرابعة، قال: فاقول: يا رب، ما بقي في النار، إلا من حبسه القرآن "، اي وجب عليه الخلود، قال ابن عبيد في روايته، قال قتادة: اي وجب عليه الخلود.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْن الْجَحْدَرِيُّ ومُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْغُبَرِيُّ وَاللَّفْظُ لِأَبِي كَامِلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَهْتَمُّونَ لِذَلِكَ، وقَالَ ابْنُ عُبَيْدٍ: فَيُلْهَمُونَ لِذَلِكَ، فَيَقُولُونَ: لَوِ اسْتَشْفَعْنَا عَلَى رَبِّنَا حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا هَذَا، قَالَ: فَيَأْتُونَ آدَمَ عَلَيْهِ السّلامُ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ آدَمُ أَبُو الْخَلْقِ، خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، اشْفَعْ لَنَا عِنْدَ رَبِّكَ حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا هَذَا، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، فَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ، فَيَسْتَحْيِي رَبَّهُ مِنْهَا، وَلَكِنِ ائْتُوا نُوحًا أَوَّلَ رَسُولٍ بَعَثَهُ اللَّهُ، قَالَ: فَيَأْتُونَ نُوحًا عَلَيْهِ السَّلامُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، فَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ، فَيَسْتَحْيِي رَبَّهُ مِنْهَا، وَلَكِنِ ائْتُوا إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلامُ الَّذِي اتَّخَذَهُ اللَّهُ خَلِيلًا، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السّلامُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ، فَيَسْتَحْيِي رَبَّهُ مِنْهَا، وَلَكِنِ ائْتُوا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ الَّذِي كَلَّمَهُ اللَّهُ، وَأَعْطَاهُ التَّوْرَاةَ، قَالَ: فَيَأْتُونَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ، فَيَسْتَحْيِي رَبَّهُ مِنْهَا، وَلَكِنِ ائْتُوا عِيسَى رُوحَ اللَّهِ وَكَلِمَتَهُ، فَيَأْتُونَ عِيسَى رُوحَ اللَّهِ وَكَلِمَتَهُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، وَلَكِنْ ائْتُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدًا، قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَيَأْتُونِي، فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي فَيُؤْذَنُ لِي، فَإِذَا أَنَا رَأَيْتُهُ، وَقَعْتُ سَاجِدًا فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، قُلْ: تُسْمَعْ سَلْ تُعْطَهْ، اشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَحْمَدُ رَبِّي بِتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِيهِ رَبِّي، ثُمَّ أَشْفَعُ، فَيَحُدُّ لِي حَدًّا فَأُخْرِجُهُمْ مِنَ النَّارِ، وَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ، ثُمَّ أَعُودُ فَأَقَعُ سَاجِدًا، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ، أَنْ يَدَعَنِي، ثُمَّ يُقَالُ: ارْفَعْ رَأْسَكَ يَا مُحَمَّدُ، قُلْ: تُسْمَعْ سَلْ تُعْطَهْ، اشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَحْمَدُ رَبِّي بِتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِيهِ، ثُمَّ أَشْفَعُ، فَيَحُدُّ لِي حَدًّا، فَأُخْرِجَهُمْ مِنَ النَّارِ، وَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ، قَالَ: فَلَا أَدْرِي فِي الثَّالِثَةِ أَوْ فِي الرَّابِعَةِ، قَالَ: فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، مَا بَقِيَ فِي النَّارِ، إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ "، أَيْ وَجَبَ عَلَيْهِ الْخُلُودُ، قَالَ ابْنُ عُبَيْدٍ فِي رِوَايَتِهِ، قَالَ قَتَادَةُ: أَيْ وَجَبَ عَلَيْهِ الْخُلُودُ.
‏‏‏‏ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو اکھٹا کرے گا۔ پھر وہ کوشش کریں گے اس مصیبت کو دور کرنے کی۔ یا ان کے دل میں اللہ اس کا فکر ڈالے گا۔ وہ کہیں گے: اگر ہم کسی کی سفارش کروائیں اپنے مالک کے پاس یہاں سے آرام پانے کو بہتر ہے اور آئیں گے آدم علیہ السلام کے پاس اور کہیں گے: تم سب آدمیوں کے باپ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنے ہاتھ سے بنایا اور اپنی (پیدا کی ہوئی) روح تم میں پھونکی اور فرشتوں کو حکم کیا تو انہوں نے تم کو سجدہ کیا تو تم آج ہم لوگوں کی سفارش کرو اللہ تعالیٰ کے پاس وہ آرام دے ہم کو اس جگہ کی تکلیف سے۔ وہ کہیں گے: میں اس لائق نہیں اور اپنے گناہ کو یاد کر کے اللہ تعالیٰ سے شرمائیں گے، لیکن تم جاؤ نوح علیہ السلام کے پاس وہ پہلے پیغمبر ہیں جن کو بھیجا اللہ تعالیٰ نے۔ وہ آئیں گے نوح علیہ السلام کے پاس تو نوح علیہ السلام کہیں گے۔ میں اس لائق نہیں اور اپنی خطا کو جو دنیا میں ان سے ہوئی تھی یاد کریں گے اور شرمائیں گے اپنے پروردگار سے اور کہیں گے: تم جاؤ ابراہیم علیہ السلام کے پاس، جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنا دوست بنایا تھا، وہ سب لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے وہ کہیں گے: میں اس لائق نہیں اور اپنی خطا کو جو ان سے ہوئی تھی۔ یاد کر کے اللہ سے شرمائیں گے لیکن تم جاؤ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جن سے اللہ تعالیٰ نے بات کی اور ان کو تورات شریف عنایت کی وہ سب موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے وہ کہیں گے: میں اس لائق نہیں وہ اپنی خطا کو جو ان سے ہوئی تھی یاد کر کے اللہ سے شرمائیں گے۔ لیکن تم جاؤ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جو اللہ کی روح ہیں اور اس کے حکم سے پیدا ہوئے ہیں۔ وہ آئیں گے عیسیٰ روح اللہ علیہ السلام کے پاس وہ کہیں گے: میں اس لائق نہیں لیکن تم جاؤ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ ایسے بندے ہیں اللہ کے جن کے اگلے اور پچھلے سب گناہ بخش دیئے گئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر وہ سب لوگ میرے پاس آئیں گے میں اپنے پروردگار سے اجازت چاہوں گا (بازیاب ہونے کی) مجھ کو اجازت ملے گی۔ جب میں اس کو دیکھوں گا تو سجدہ میں گر پڑوں گا پھر وہ مجھے رہنے دے گا سجدے میں جب تک چاہے گا اور بعد اس کے کہا جائے گا: اے محمد! اٹھا اپنے سر کو اور کہہ جو کہتا ہے۔ سنا جائے گا اور مانگ جو مانگتا ہے دیا جائے گا: اور شفاعت کر تیری شفاعت قبول کی جائے گی۔ پھر میں سر اٹھاؤں گا اور اپنے پروردگار کی تعریف کروں گا اس طرح سے جیسے وہ مجھ کو سکھائے گا۔ پھر سفارش کروں گا تو ایک حد میرے لیے مقرر کی جائے گی۔ میں اس حد کے موافق لوگوں کو دوزخ سے نکالوں گا اور جنت میں لے جاؤں گا اور دوبارہ اپنے پروردگار کے پاس آ کر سجدے میں گر جاؤں گا وہ مجھے رہنے دے گا سجدے میں جب تک اس کو منظور ہو گا۔ پھر حکم ہوگا: اے محمد! اپنے سر کو اٹھاؤ اور کہو سنا جائے گا، مانگو دیا جائے گا، سفارش کرو قبول کی جائے گی، میں اپنے سر کو اٹھاؤں گا اور اپنے مالک کی تعریف کروں گا جس طرح وہ مجھ کو سکھائے گا۔ پھر سفارش کروں گا تو ایک حد باندھی جائے گی۔ میں اس حد کے موافق لوگوں کو دوزخ سے نکالوں گا اور جنت میں داخل کروں گا۔ راوی نے کہا: مجھے یاد نہیں آپ نے تیسری بار یا چوتھی بار میں فرمایا: میں کہوں گا اے مالک میرے! اب تو کوئی دوزخ میں نہیں ریا۔ مگر وہ جو قرآن کے بموجب ہمیشہ دوزخ میں رہنے کے لائق ہے۔ سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یعنی جس کا ہمیشہ رہنا وہاں ضروری ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الرقاق، باب: صفة الجنة والنار برقم (6565) انظر ((التحفة)) برقم (4136)»
حدیث نمبر: 476
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا محمد بن المثنى ، ومحمد بن بشار ، قالا: حدثنا ابن ابي عدي ، عن سعيد ، عن قتادة ، عن انس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يجتمع المؤمنون يوم القيامة، فيهتمون بذلك، او يلهمون ذلك، بمثل حديث ابي عوانة، وقال في الحديث: ثم آتيه الرابعة، او اعود الرابعة، فاقول: يا رب، ما بقي إلا من حبسه القرآن.وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، ومُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَجْتَمِعُ الْمُؤْمِنُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَهْتَمُّونَ بِذَلِكَ، أَوْ يُلْهَمُونَ ذَلِكَ، بِمِثْلِ حَدِيثِ أَبِي عَوَانَةَ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: ثُمَّ آتِيهِ الرَّابِعَةَ، أَوْ أَعُودُ الرَّابِعَةَ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، مَا بَقِيَ إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ.
‏‏‏‏ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے دوسری روایت بھی ایسی ہی ہے، اس میں یہ ہے کہ میں اپنے پروردگار کے پاس چوتھی مرتبہ آؤں گا اور عرض کروں گا اے پروردگار! اب تو دوزخ میں کوئی باقی نہیں رہا۔ مگر جس کو قرآن نے روک رکھا (یعنی قرآن کے بموجب وہ ہمیشہ دوزخ میں رہنے کا سزوار ہے)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في التفسير، باب: قول الله ﴿وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا﴾ برقم (4476) مطولا - وابن ماجه في ((سننه)) في الزهد، باب: ذكر الشفاعة برقم (4312) انظر ((التحفة)) برقم (1171)»
حدیث نمبر: 477
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا معاذ بن هشام ، قال: حدثني ابي ، عن قتادة ، عن انس بن مالك ، ان نبي الله صلى الله عليه وسلم، قال: يجمع الله المؤمنين يوم القيامة، فيلهمون لذلك، بمثل حديثهما، وذكر في الرابعة، فاقول: يا رب، ما بقي في النار، إلا من حبسه القرآن، اي وجب عليه الخلود.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَجْمَعُ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُلْهَمُونَ لِذَلِكَ، بِمِثْلِ حَدِيثِهِمَا، وَذَكَرَ فِي الرَّابِعَةِ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، مَا بَقِيَ فِي النَّارِ، إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ، أَيْ وَجَبَ عَلَيْهِ الْخُلُودُ.
‏‏‏‏ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اکھٹا کرے گا مومنوں کو قیامت کے دن ان کو خیال آئے گا۔ اخیر تک جیسے اوپر حدیث گزری اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چوتھی بار عرض کریں گے اے پروردگار! اب تو جہنم میں کوئی نہ رہا مگر جو قرآن کے حکم سے رکا ہوا ہے یعنی جو ہمیشہ رہنے کا مستحق ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في التفسير، باب: قول الله ﴿ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ﴾ مطولا وفى التوحيد، باب: قول الله تعالى: ﴿لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ﴾ مطولا برقم (7410) وفى، باب: ما جاء في قول الله تعالى ﴿ إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ ﴾ برقم (7450) و من، باب: ما جاء في قوله عز وجل ﴿ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا ﴾ برقم (7516) انظر ((التحفة)) برقم (1357)»
حدیث نمبر: 478
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا محمد بن منهال الضرير ، حدثنا يزيد بن زريع ، حدثنا سعيد بن ابي عروبة ، وهشام صاحب الدستوائي، عن قتادة ، عن انس بن مالك ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ح وحدثني ابو غسان المسمعي ، ومحمد بن المثنى ، قالا: حدثنا معاذ وهو ابن هشام ، قال: حدثني ابي ، عن قتادة ، حدثنا انس بن مالك ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " يخرج من النار، من قال: لا إله إلا الله، وكان في قلبه من الخير ما يزن شعيرة، ثم يخرج من النار، من قال: لا إله إلا الله، وكان في قلبه من الخير ما يزن برة، ثم يخرج من النار، من قال: لا إله إلا الله، وكان في قلبه من الخير ما يزن ذرة "، زاد ابن منهال في روايته، قال يزيد : فلقيت شعبة فحدثته بالحديث، فقال شعبة : حدثنا به قتادة ، عن انس بن مالك ، عن النبي صلى الله عليه وسلم بالحديث، إلا ان شعبة، جعل مكان الذرة، ذرة، قال يزيد: صحف فيها ابو بسطام.وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِنْهَالٍ الضَّرِيرُ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، وَهِشَامٌ صَاحِبُ الدَّسْتَوَائِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ح وحَدَّثَنِي أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، ومُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذٌ وَهُوَ ابْنُ هِشَامٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَخْرُجُ منَ النَّارِ، مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ شَعِيرَةً، ثُمَّ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ، مَنْ قَال: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ بُرَّةً، ثُمَّ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ، مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ ذَرَّةً "، زَادَ ابْنُ مِنْهَالٍ فِي رِوَايَتِهِ، قَالَ يَزِيدُ : فَلَقِيتُ شُعْبَةَ فَحَدَّثْتُهُ بِالْحَدِيثِ، فَقَالَ شُعْبَةُ : حَدَّثَنَا بِهِ قَتَادَةُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَدِيثِ، إِلَّا أَنَّ شُعْبَةَ، جَعَلَ مَكَانَ الذَّرَّةِ، ذُرَةً، قَالَ يَزِيدُ: صَحَّفَ فِيهَا أَبُو بِسْطَام.
‏‏‏‏ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نکلے گا دوزخ سے وہ شخص جس نے «لا اله الا الله» کہا ہو گا۔ اور اس کے دل میں ایک جو برابر بھلائی ہو گی۔ پھر نکلے گا دوزخ سے وہ شخص جس نے «لا اله الا الله» کہا ہو گا اور اس کے دل میں گیہوں برابر بھلائی ہو گی، پھر نکلے گا دوزخ سے وہ شخص جس نے «لا اله الا الله» کہا ہو گا اور اس کے دل میں چیونٹی برابر بھلائی ہو گی۔ شعبہ نے اس حدیث میں تصحیف کی اور بجائے «ذرَّه» کے (جس کے معنی چیونٹی کے ہیں) انہوں نے «ذُره» روایت کیا (جو ایک اناج ہے جس کو چینا کہتے ہیں)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((الايمان)) باب: زيادة الايمان ونقصانه برقم (44) وفي التوحيد، باب: قول الله تعالى: ﴿ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ﴾ برقم (7410) والترمذي في ((جامعه)) في صفة جهنم، باب: ما جاء ان للنار نفسين وما ذكر من يخرج من الناس من اهل التوحيد برقم (2593) وابن ماجه في ((سننه)) في الزهد، باب: ذكر الشفاعة برقم (4312) انظر ((التحفة)) برقم (11356 و 1194 و 1272)»
حدیث نمبر: 479
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا ابو الربيع العتكي ، حدثنا حماد بن زيد ، حدثنا معبد بن هلال العنزي . ح وحدثناه سعيد بن منصور واللفظ له، حدثنا حماد بن زيد ، حدثنا معبد بن هلال العنزي ، قال: انطلقنا إلى انس بن مالك ، وتشفعنا بثابت، فانتهينا إليه وهو يصلي الضحى، فاستاذن لنا ثابت، فدخلنا عليه واجلس ثابتا معه على سريره، فقال له: يا ابا حمزة، إن إخوانك من اهل البصرة يسالونك، ان تحدثهم حديث الشفاعة، قال: حدثنا محمد صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا كان يوم القيامة ماج الناس بعضهم إلى بعض، فياتون آدم، فيقولون له: اشفع لذريتك، فيقول: لست لها، ولكن عليكم بإبراهيم عليه السلام، فإنه خليل الله، فياتون إبراهيم، فيقول: لست لها، ولكن عليكم بموسى عليه السلام، فإنه كليم الله، فيؤتى موسى، فيقول: لست لها، ولكن عليكم بعيسى عليه السلام، فإنه روح الله وكلمته، فيؤتى عيسى، فيقول: لست لها، ولكن عليكم بمحمد صلى الله عليه وسلم، فاوتى، فاقول: انا لها، فانطلق فاستاذن على ربي، فيؤذن لي، فاقوم بين يديه، فاحمده بمحامد لا اقدر عليه الآن يلهمنيه الله، ثم اخر له ساجدا، فيقال لي: يا محمد، ارفع راس، وقل: يسمع لك، وسل تعطه، واشفع تشفع، فاقول: رب امتي، امتي، فيقال: انطلق، فمن كان في قلبه مثقال حبة من برة او شعيرة من إيمان، فاخرجه منها، فانطلق، فافعل، ثم ارجع إلى ربي، فاحمده بتلك المحامد، ثم اخر له ساجدا، فيقال لي: يا محمد، ارفع راسك، وقل: يسمع لك، وسل تعطه، واشفع تشفع، فاقول: امتي، امتي، فيقال لي: انطلق، فمن كان في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان، فاخرجه منها، فانطلق، فافعل، ثم اعود إلى ربي، فاحمده بتلك المحامد، ثم اخر له ساجدا، فيقال لي: يا محمد، ارفع راسك، وقل: يسمع لك، وسل تعطه، واشفع تشفع، فاقول: يا رب، امتي، امتي، فيقال لي: انطلق، فمن كان في قلبه، ادنى، ادنى، ادنى من مثقال حبة من خردل من إيمان، فاخرجه من النار، فانطلق، فافعل "، هذا حديث انس الذي انبانا به، فخرجنا من عنده، فلما كنا بظهر الجبان، قلنا: لو ملنا إلى الحسن، فسلمنا عليه وهو مستخف في دار ابي خليفة، قال: فدخلنا عليه فسلمنا عليه، فقلنا: يا ابا سعيد، جئنا من عند اخيك ابي حمزة، فلم نسمع مثل حديث حدثناه في الشفاعة، قال: هيه فحدثناه الحديث، فقال: هيه، قلنا: ما زادنا؟ قال: قد حدثنا به منذ عشرين سنة، وهو يومئذ جميع، ولقد ترك شيئا ما ادري انسي الشيخ او كره، ان يحدثكم فتتكلوا، قلنا له حدثنا فضحك، وقال: خلق الإنسان من عجل سورة الانبياء آية 37 ما ذكرت لكم هذا، إلا وانا اريد ان احدثكموه، ثم ارجع إلى ربي في الرابعة، فاحمده بتلك المحامد، ثم اخر له ساجدا، فيقال لي: يا محمد، ارفع راسك، وقل: يسمع لك، وسل تعط، واشفع تشفع، فاقول: يا رب، ائذن لي فيمن، قال: لا إله إلا الله، قال: ليس ذاك لك، او قال: ليس ذاك إليك، ولكن، وعزتي، وكبريائي، وعظمتي، وجبريائي، لاخرجن من قال: لا إله إلا الله "، قال: فاشهد على الحسن ، انه حدثنا به، انه سمع انس بن مالك اراه، قال: قبل عشرين سنة، وهو يومئذ جميع.
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ هِلَالٍ الْعَنَزِيُّ . ح وحَدَّثَنَاه سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ هِلَالٍ الْعَنَزِيُّ ، قَالَ: انْطَلَقْنَا إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، وَتَشَفَّعْنَا بِثَابِتٍ، فَانْتَهَيْنَا إِلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي الضُّحَى، فَاسْتَأْذَنَ لَنَا ثَابِتٌ، فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ وَأَجْلَسَ ثَابِتًا مَعَهُ عَلَى سَرِيرِهِ، فَقَالَ لَهُ: يَا أَبَا حَمْزَةَ، إِنَّ إِخْوَانَكَ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ يَسْأَلُونَكَ، أَنْ تُحَدِّثَهُمْ حَدِيثَ الشَّفَاعَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ مَاجَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَيَأْتُونَ آدَمَ، فَيَقُولُونَ لَهُ: اشْفَعْ لِذُرِّيَّتِكَ، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِإِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَإِنَّهُ خَلِيلُ اللَّهِ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، فَإِنَّهُ كَلِيمُ اللَّهِ، فَيُؤْتَى مُوسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِعِيسَى عَلَيْهِ السَّلَام، فَإِنَّهُ رُوحُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ، فَيُؤتَى عِيسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُوتَى، فَأَقُولُ: أَنَا لَهَا، فَأَنْطَلِقُ فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي، فَيُؤْذَنُ لِي، فَأَقُومُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَأَحْمَدُهُ بِمَحَامِدَ لَا أَقْدِرُ عَلَيْهِ الآنَ يُلْهِمُنِيهِ اللَّهُ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَ، وَقُلْ: يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: رَبِّ أُمَّتِي، أُمَّتِي، فَيُقَالُ: انْطَلِقْ، فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ بُرَّةٍ أَوْ شَعِيرَةٍ مِنَ إِيمَانٍ، فَأَخْرِجْهُ مِنْهَا، فَأَنْطَلِقُ، فَأَفْعَلُ، ثُمَّ أَرْجِعُ إِلَى رَبِّي، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ: يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: أُمَّتِي، أُمَّتِي، فَيُقَالُ لِي: انْطَلِقْ، فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنَ إِيمَانٍ، فَأَخْرِجْهُ مِنْهَا، فَأَنْطَلِقُ، فَأَفْعَلُ، ثُمَّ أَعُودُ إِلَى رَبِّي، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ: يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي، أُمَّتِي، فَيُقَالُ لِي: انْطَلِقْ، فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ، أَدْنَى، أَدْنَى، أَدْنَى مِنْ مِثْقَالِ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنَ إِيمَانٍ، فَأَخْرِجْهُ مِنَ النَّارِ، فَأَنْطَلِقُ، فَأَفْعَلُ "، هَذَا حَدِيثُ أَنَسٍ الَّذِي أَنْبَأَنَا بِهِ، فَخَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِ، فَلَمَّا كُنَّا بِظَهْرِ الْجَبَّانِ، قُلْنَا: لَوْ مِلْنَا إِلَى الْحَسَنِ، فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ وَهُوَ مُسْتَخْفٍ فِي دَارِ أَبِي خَلِيفَةَ، قَالَ: فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ، فَقُلْنَا: يَا أَبَا سَعِيدٍ، جِئْنَا مِنْ عِنْدِ أَخِيكَ أَبِي حَمْزَةَ، فَلَمْ نَسْمَعْ مِثْلَ حَدِيثٍ حَدَّثَنَاهُ فِي الشَّفَاعَةِ، قَالَ: هِيَهِ فَحَدَّثْنَاهُ الْحَدِيثَ، فَقَالَ: هِيَهِ، قُلْنَا: مَا زَادَنَا؟ قَالَ: قَدْ حَدَّثَنَا بِهِ مُنْذُ عِشْرِينَ سَنَةً، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ جَمِيعٌ، وَلَقَدْ تَرَكَ شَيْئًا مَا أَدْرِي أَنَسِيَ الشَّيْخُ أَوْ كَرِهَ، أَنْ يُحَدِّثَكُمْ فَتَتَّكِلُوا، قُلْنَا لَهُ حَدِّثْنَا فَضَحِكَ، وَقَالَ: خُلِقَ الإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ سورة الأنبياء آية 37 مَا ذَكَرْتُ لَكُمْ هَذَا، إِلَّا وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُحَدِّثَكُمُوهُ، ثُمَّ أَرْجِعُ إِلَى رَبِّي فِي الرَّابِعَةِ، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ: يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، ائْذَنْ لِي فِيمَنْ، قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: لَيْسَ ذَاكَ لَكَ، أَوَ قَالَ: لَيْسَ ذَاكَ إِلَيْكَ، وَلَكِنْ، وَعِزَّتِي، وَكِبْرِيَائِي، وَعَظَمَتِي، وَجِبْرِيَائِي، لَأُخْرِجَنَّ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ "، قَالَ: فَأَشْهَدُ عَلَى الْحَسَنِ ، أَنَّهُ حَدَّثَنَا بِهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ أُرَاهُ، قَالَ: قَبْلَ عِشْرِينَ سَنَةً، وَهُوَ يَوْمِئِذٍ جَمِيعٌ.
‏‏‏‏ معبد بن ہلال عنزی سے روایت ہے کہ ہم سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ثابت کی سفارش چاہی (ان سے ملنے کے لئے) آخر ہم ان تک پہنچے۔ وہ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ثابت نے ہمارے لئے اجازت مانگی اندر آنے کی، ہم اندر گئے، انہوں نے ثابت کو اپنے ساتھ بٹھایا تخت پر۔ ثابت نے کہا: اے ابوحمزہ (یہ کنیت ہے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی) تمہارے بھائی بصرہ والے چاہتے ہیں تم ان کو شفاعت کی حدیث سناؤ۔ انہوں نے کہا: ہم سے بیان کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے: جب قیامت کا دن ہو گا تو لوگ گھبرا کر ایک دوسرے کے پاس جائیں گے: پہلے آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے۔ کہیں گے: تم اپنی اولاد کی سفارش کرو (اللہ کے پاس تاکہ وہ نجات دے اس آفت سے) وہ کہیں گے: میں اس لائق نہیں، لیکن تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے دوست ہیں۔ لوگ ان کے پاس جائیں گے وہ کہیں گے میں اس قابل نہیں، لیکن تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ کلیم اللہ ہیں (یعنی اللہ نے ان سے کلام کیا بلاواسطہ) لوگ ان کے پاس جائیں گے، وہ کہیں گے: میں اس لائق نہیں، لیکن تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ وہ روح اللہ ہیں اور اس کا کلمہ ہیں (یعنی بن باپ کے اللہ کے حکم سے پیدا ہوئے ہیں) لوگ ان کے پاس جائیں گے، وہ کہیں گے: میں اس لائق نہیں لیکن تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ، وہ سب لوگ میرے پاس آئیں گے میں کہوں گا، اچھا یہ میرا کام ہے اور چلوں گا اور اللہ تعالیٰ سے اجازت مانگوں گا (باریاب ہونے) مجھے اجازت ملے گی، میں اس کے سامنے کھڑا ہوں گا۔ اور ایسی ایسی تعریفیں اس کی بیان کروں گا جو اب میں نہیں بیان کر سکتا۔ اس وقت اللہ میرے دل میں ڈال دے گا، بعد اس کے سجدے میں گر پڑوں گا۔ آخر حکم ہو گا، اے محمد! اپنا سر اٹھا اور کہہ ہم سنیں گے اور مانگ ہم دیں گے، سفارش کر ہم قبول کریں گے۔ میں عرض کروں گا: مالک میرے! امت میری، امت میری۔ حکم ہوگا، جا اور جس کے دل میں گیہوں یا جو کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو اس کو نکال لے دوزخ سے، میں ایسے سب لوگوں کو نکال لوں گا اور پھر مالک کے پاس آ کر ویسی ہی تعریفیں کروں گا پھر سجدہ میں گر پڑوں گا۔ حکم ہو گا: اے محمد! اپنا سر اٹھا اور کہہ جو کہنا ہے۔ تیری بات سنی جائے گی، مانگ جو مانگتا ہے ملے گا، سفارش کر تیری سفارش قبول ہوگی۔ میں عرض کروں گا: مالک میرے! امت میری، امت میری (یعنی اپنی امت کی بخشش چاہتا ہوں) حکم ہو گا جا اور جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو اس کو جہنم سے نکال لے میں ایسا ہی کروں گا۔ اور پھر لوٹ کر اپنے پروردگار کے پاس آؤں گا اور ایسی ہی تعریفیں کروں گا۔ اور سجدے میں گر پڑوں گا۔ حکم ہو گا، اے محمد! اپنا سر اٹھا اور کہہ ہم سنیں گے، مانگ ہم دیں گے، سفارش کر ہم قبول کریں گے۔ میں عرض کروں گا: اے مالک میرے! میری امت، میری امت۔ حکم ہو گا، جا اور جس کے دل میں رائی کے دانے سے بھی کم، بہت کم، بہت ہی کم ایمان ہو اس کو جہنم سے نکال لے۔ میں جا کر ایسا ہی کروں گا۔ معبد بن ہلال نے کہا: یہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جو انہوں نے ہم سے بیان کی، پھر ہم ان کے پاس سے نکلے جب جبان (قبرستان) کی بلندی پر پہنچے تو ہم نے کہا: کاش! ہم حسن (بصری) کی طرف چلیں اور ان کو سلام کریں۔ اور وہ ابوخلیفہ کے گھر میں چھپے ہوئے تھے (حجاج بن یوسف ظالم کے ڈر سے) خیر ہم ان کے پاس گئے اور ان کو سلام کیا، ہم نے کہا: اے ابو سعید! ہم تمہارے بھائی ابوحمزہ (سیدنا انس رضی اللہ عنہ) کے پاس سے آ رہے ہیں، انہوں نے شفاعت کے باب میں ایک حدیث ہم سے بیان کی، ویسی حدیث ہم نے نہیں سنی، انہوں نے کہا: ہاں بیان کرو۔ ہم نے وہ حدیث ان سے بیان کی۔ انہوں نے کہا: اور بیان کرو۔ ہم نے کہا: بس اس سے زیادہ انہوں نے بیان نہیں کی۔ انہوں نے کہا: یہ حدیث تو انہوں نے ہم سے بیس برس پہلے بیان کی تھی جب وہ توانا تھے (یعنی بوڑھے نہ تھے جیسے اب ہیں) اب انہوں نے کچھ چھوڑ دیا، میں نہیں جانتا وہ بھول گئے یا تم سے بیان کرنا مناسب نہ جانا ایسا نہ ہو تم بھروسہ کر بیٹھو اور نیک اعمال میں سستی کرنے لگو، ہم نے ان سے کہا وہ کیا ہے؟ ہم سے بیان کرو یہ سن کر ہنسے اور کہا: انسان کی پیدائش میں جلدی ہے، میں نے تم سے یہ قصہ اس لئے ذکر کیا تھا کہ میں تم سے بیان کروں اس ٹکڑے کو (جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے چھوڑ دیا یعنی تم جلدی کر کے درخواست کر بیٹھے بیان کرنے کی اگر درخواست نہ کرتے تب بھی بیان کرتا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں پھر لوٹوں گا اپنے پروردگار کے پاس چوتھی بار اسی طرح تعریف توصیف کروں گا پھر سجدے میں گروں گا مجھ کو حکم ہو گا، اے محمد! سر اٹھاؤ اور کہو ہم سنیں گے، مانگو ہم دیں گے۔ سفارش کرو ہم قبول کریں گے۔ اس وقت میں عرض کروں گا مالک میرے! مجھ کو اجازت دے اس شخص کو بھی جہنم سے نکالنے کی جس نے «لا اله الا الله» کہا ہو (یعنی صرف توحید پر یقین رکھتا ہو) اللہ تعالیٰ فرمائے گا، یہ تمہارا کام نہیں لیکن قسم ہے میری عزت اور بزرگی اور جاہ و جلال کی میں جہنم سے نکالوں گا اس شخص کو جس نے «لا اله الا الله» کہا ہو۔ معبد نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ حسن نے یہ حدیث ہم سے بیان کی کہا کہ انہوں نے اس کو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سنا ہے میں سمجھتا ہوں یوں کہا: بیس برس سے پہلے جب وہ زوردار تھے (یعنی ان کا حافظہ اچھا تھا بدن میں طاقت تھی)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في التوحيد، باب: كلام الرب عزوجل يوم القيامة مع الانبياء، وغيرهم برقم (7510) انظر ((التحفة)) برقم (523 و 1599)»
حدیث نمبر: 480
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، ومحمد بن عبد الله بن نمير واتفقا في سياق الحديث، إلا ما يزيد احدهما من الحرف بعد الحرف، قالا: حدثنا محمد بن بشر ، حدثنا ابو حيان ، عن ابي زرعة ، عن ابي هريرة ، قال: " اتي رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما بلحم، فرفع إليه الذراع، وكانت تعجبه، فنهس منها نهسة، فقال: انا سيد الناس يوم القيامة، وهل تدرون بم ذاك يجمع الله يوم القيامة الاولين والآخرين في صعيد واحد؟ فيسمعهم الداعي، وينفذهم البصر، وتدنو الشمس، فيبلغ الناس من الغم والكرب ما لا يطيقون، وما لا يحتملون، فيقول بعض الناس لبعض: الا ترون ما انتم فيه، الا ترون ما قد بلغكم، الا تنظرون من يشفع لكم إلى ربكم؟، فيقول بعض الناس لبعض: ائتوا آدم، فياتون آدم، فيقولون: يا آدم، انت ابو البشر، خلقك الله بيده ونفخ فيك من روحه، وامر الملائكة فسجدوا لك، اشفع لنا إلى ربك، الا ترى إلى ما نحن فيه، الا ترى إلى ما قد بلغنا، فيقول آدم: إن ربي غضب اليوم غضبا، لم يغضب قبله مثله، ولن يغضب بعده مثله، وإنه نهاني عن الشجرة فعصيته، نفسي، نفسي، اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى نوح، فياتون نوحا، فيقولون: يا نوح، انت اول الرسل إلى الارض، وسماك الله عبدا شكورا، اشفع لنا إلى ربك، الا ترى ما نحن فيه، الا ترى ما قد بلغنا، فيقول لهم: إن ربي قد غضب اليوم غضبا، لم يغضب قبله مثله، ولن يغضب بعده مثله، وإنه قد كانت لي دعوة، دعوت بها على قومي، نفسي، نفسي، اذهبوا إلى إبراهيم عليه السلام، فياتون إبراهيم، فيقولون: انت نبي الله وخليله من اهل الارض، اشفع لنا إلى ربك، الا ترى إلى ما نحن فيه، الا ترى إلى ما قد بلغنا، فيقول لهم إبراهيم: إن ربي قد غضب اليوم غضبا، لم يغضب قبله مثله، ولا يغضب بعده مثله، وذكر كذباته، نفسي، نفسي، اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى موسى، فياتون موسى عليه السلام، فيقولون: يا موسى، انت رسول الله، فضلك الله برسالاته وبتكليمه على الناس، اشفع لنا إلى ربك، الا ترى إلى ما نحن فيه، الا ترى ما قد بلغنا، فيقول لهم موسى عليه السلام: إن ربي قد غضب اليوم غضبا، لم يغضب قبله مثله، ولن يغضب بعده مثله، وإني قتلت: نفسا لم اومر بقتلها، نفسي، نفسي، اذهبوا إلى عيسى عليه السلام، فياتون عيسى، فيقولون: يا عيسى، انت رسول الله وكلمت الناس في المهد، وكلمة منه القاها إلى مريم وروح منه، فاشفع لنا إلى ربك، الا ترى ما نحن فيه، الا ترى ما قد بلغنا، فيقول لهم عيسى عليه السلام: إن ربي قد غضب اليوم غضبا، لم يغضب قبله مثله، ولن يغضب بعده مثله، ولم يذكر له ذنبا، نفسي، نفسي، اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى محمد صلى الله عليه وسلم، فياتوني، فيقولون: يا محمد، انت رسول الله، وخاتم الانبياء، وغفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تاخر، اشفع لنا إلى ربك، الا ترى ما نحن فيه، الا ترى ما قد بلغنا، فانطلق، فآتي تحت العرش فاقع ساجدا لربي، ثم يفتح الله علي ويلهمني من محامده وحسن الثناء عليه شيئا، لم يفتحه لاحد قبلي، ثم يقال: يا محمد، ارفع راسك، سل تعطه، اشفع تشفع، فارفع راسي، فاقول: يا رب، امتي، امتي، فيقال: يا محمد، ادخل الجنة من امتك من لا حساب عليه من الباب الايمن من ابواب الجنة، وهم شركاء الناس فيما سوى ذلك من الابواب، والذي نفس محمد بيده، إن ما بين المصراعين من مصاريع الجنة لكما بين مكة وهجر، او كما بين مكة وبصرى "،
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، ومُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَاتَّفَقَا فِي سِيَاقِ الْحَدِيثِ، إِلَّا مَا يَزِيدُ أَحَدُهُمَا مِنَ الْحَرْفِ بَعْدَ الْحَرْفِ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بِلَحْمٍ، فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ، وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ، فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً، فَقَالَ: أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَهَلْ تَدْرُونَ بِمَ ذَاكَ يَجْمَعُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ؟ فَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي، وَيَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ، فَيَبْلُغُ النَّاسَ مِنَ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ، وَمَا لَا يَحْتَمِلُونَ، فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ: أَلَا تَرَوْنَ مَا أَنْتُمْ فِيهِ، أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ، أَلَا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ؟، فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ: ائْتُوا آدَمَ، فَيَأْتُونَ آدَمَ، فَيَقُولُونَ: يَا آدَمُ، أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ، خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، فَيَقُولُ آدَمُ: إِنَّ رَبِّي غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا، لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ نَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُهُ، نَفْسِي، نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ، فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُونَ: يَا نُوحُ، أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى الأَرْضِ، وَسَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، فَيَقُولُ لَهُمْ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا، لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ كَانَتْ لِي دَعْوَةٌ، دَعَوْتُ بِهَا عَلَى قَوْمِي، نَفْسِي، نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلامُ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، فَيَقُولُ لَهُمْ إِبْرَاهِيمُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا، لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَذَكَرَ كَذَبَاتِهِ، نَفْسِي، نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى، فَيَأْتُونَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ، فَيَقُولُونَ: يَا مُوسَى، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، فَضَّلَكَ اللَّهُ بِرِسَالَاتِهِ وَبِتَكْلِيمِهِ عَلَى النَّاسِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، فَيَقُولُ لَهُمْ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا، لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَتَلْتُ: نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا، نَفْسِي، نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى عَلَيْهِ السَّلامُ، فَيَأْتُونَ عِيسَى، فَيَقُولُونَ: يَا عِيسَى، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ، وَكَلِمَةٌ مِنْهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، فَيَقُولُ لَهُمْ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلامُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا، لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ لَهُ ذَنْبًا، نَفْسِي، نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَأْتُونِّي، فَيَقُولُونَ: يَا مُحَمَّدُ، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، وَخَاتَمُ الأَنْبِيَاءِ، وَغَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، فَأَنْطَلِقُ، فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي، ثُمَّ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيَّ وَيُلْهِمُنِي مِنْ مَحَامِدِهِ وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا، لَمْ يَفْتَحْهُ لِأَحَدٍ قَبْلِي، ثُمَّ يُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، سَلْ تُعْطَهْ، اشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي، أُمَّتِي، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، أَدْخِلِ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِ مِنَ البَابِ الأَيْمَنِ مِنَ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الأَبْوَابِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ لَكَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَهَجَرٍ، أَوْ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى "،
‏‏‏‏ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گوشت لایا گیا تو دست کا گوشت آپ کو دیا گیا اور دست کا گوشت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دانتوں سے اسے نوچا، پھر فرمایا: میں سردار ہوں سب آدمیوں کا قیامت کے دن اور تم جانتے ہو کس وجہ سے اللہ تعالیٰ اکٹھا کرے گا قیامت کے دن اگلوں اور پچھلوں کو ایک ہی میدان میں یہاں تک کہ پکارنے والے کی آواز ان سب کو سنائی دے گی اور دیکھنے والے کی نگاہ ان سب پر پہنچے گی اور آفتاب نزدیک ہو جائے گا۔ اور لوگوں پر وہ مصیبت اور سختی ہو گی کہ اس کہ سہہ نہ سکیں گے۔ آخر آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے۔ چلو آدم علیہ السلام کے پاس اور ان کے پاس جائیں گے اور کہیں گے: اے آدم! تم سب آدمیوں کے باپ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح تم میں پھونکی اور فرشتوں کو حکم کیا انہوں نے سجدہ کیا تم کو، ہماری سفارش کرو اپنے پروردگار سے، کیا تم نہیں دیکھتے ہم کس حال میں ہیں۔ کیا تم نہیں دیکھتے جو ہم پر مصیبت ہے۔ آدم علیہ السلام کہیں گے: آج میرا پروردگار غصے میں ہے اور ایسا غصے میں ہے کہ کبھی ایسا غصے نہیں ہوا تھا نہ ہوگا۔ اور اس نے مجھے منع کیا تھا درخت سے لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی (اور درخت میں سے کھا لیا) اب مجھے خود اپنی فکر ہے تم اور کسی کے پاس جاؤ نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ پھر وہ سب لوگ نوح علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے: اے نوح! تم سب پیغمبروں سے پہلے زمین پر آئے اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں شکر گزار بندہ کہا تم ہماری سفارش کرو اپنے رب کے پاس کیا تم نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں اور جو مصیبت ہم پر آئی ہے۔ وہ کہیں گے: میرا رب آج ایسا غصہ میں ہے کہ ویسا کبھی نہیں ہوا تھا نہ ہو گا، اور میں نے اپنی قوم پر بددعا کی تھی اس لیے مجھے خود اپنی فکر ہے، تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ پھر وہ سب مل کر ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے: اے ابراہیم! تم اللہ کے نبی ہو اور اس کے دوست ہو، زمین والوں میں سے، تم ہماری سفارش کرو اپنے پروردگار کے پاس، کیا تم نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے۔ وہ کہیں گے: میرا پروردگار آج اتنا غصہ میں ہے کہ ویسا کبھی نہیں ہوا تھا نہ ہو گا اور اپنی جھوٹ والی باتوں کو بیان کریں گے (یعنی دنیا میں جو انہوں نے تین بار جھوٹ بولا تھا) اس لئے مجھے خود اپنی فکر ہے تم اور کسی کے پاس جاؤ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے: اے موسیٰ! تم اللہ کے رسول ہو اللہ نے تمہیں بزرگی دی اپنے پیاموں سے اور اپنے کلام سے سب لوگوں پر۔ تم ہماری سفارش کرو اپنے پروردگار کے پاس کیا تم نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کہیں گے: میرا پروردگار آج ایسے غصہ میں ہے اتنا کبھی غصہ نہیں ہوا تھا نہ ہو گا۔ اور میں نے دنیا میں ایک خون کیا تھا جس کا مجھے حکم نہ تھا، اس لیے مجھے خود اپنی فکر ہے۔ تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ سب لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے: اے عیسیٰ! تم اللہ کے رسول ہو۔ تم نے لوگوں سے بات کی ماں کی گود میں (جھولے میں دودھ پیتے وقت) تم اللہ کا ایک کلمہ ہو جو اس نے ڈال دیا مریم علیہا السلام میں اور اس کی روح ہو تو سفارش کرو ہماری اپنے رب کے پاس، کیا تم نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے، عیسیٰ علیہ السلام کہیں گے: میرا پروردگار آج اس قدر غصے میں ہے کہ اتنا غصہ میں کبھی نہیں ہوا اور نہ کبھی ہو گا اور گناہ ان کا بیان نہیں کیا (جیسے اور پیغمبروں کی خطائیں بیان کیں۔ کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی گناہ منقول نہیں) تو مجھے اپنی فکر ہے، اپنی فکر ہے، تم اور کسی کے پاس جاؤ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ۔ وہ سب میرے پاس آئیں گے اور کہیں گے: اے محمد! تم اللہ کے رسول ہو۔ خاتم الانبیاء ہو، اللہ نے تمہارے اگلے پچھلے سب گناہ بخش دیئے ہیں، تم سفارش کرو ہماری اپنے رب کے پاس، کیا تم ہمارا حال نہیں دیکھتے ہم کس مصیبت میں ہیں۔ یہ سن کر میں چلوں گا اور عرش تلے آ کر اپنے پروردگار کو سجدہ کروں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ میرا دل کھول دے گا اور وہ وہ تعریفیں اپنی مجھے بتائے گا جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں بتائیں (میں اس کی خوب تعریف اور حمد کروں گا) پھر فرمائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھا۔ مانگ جو مانگنا ہے دیا جائے گا۔ سفارش کر قبول کی جائے گی، میں سر اٹھاؤں گا اور کہوں گا: امت میری، میری امت، حکم ہو گا، اے محمد! اپنی امت میں سے ان لوگوں کو جن سے حساب کتاب نہ ہو گا باب ایمن میں سے جنت میں داخل کر اور وہ اور لوگوں کے شریک ہیں۔ باقی دروازوں میں جنت کے (‏‏یعنی ان میں سے بھی جا سکتے ہیں مگر یہ دروازہ ان کے لیے مخصوص ہے) قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! جنت کے دروازے کے دونوں بازؤں میں اتنا فاصلہ ہے جیسے مکہ اور ہجر (ایک شہر ہے بحرین میں) یا جیسے مکہ اور بصرہ میں۔ (بصریٰ ایک شہر ہے دمشق سے تین منزل پر)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((احاديث الانبياء)) باب يزفون النسلان فى المشي ببرعة (3361) وفي، باب: قول الله عز وجل: ﴿ لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ ﴾ برقم (3340) وفي التفسير، باب: ﴿ ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا ﴾ برقم (4712) والترمذى في ((جامعه)) في الزهد، باب: ما جاء في الشافعة وقال: هذا حديث حسن صحيح، برقم (2434) وفي الاطعمة، باب: ما جاء فى اى اللحم كان احب الى رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم (1837) باختصار - وابن ماجه في ((سننه)) في الاطعمة، باب: اطايب اللحم - مختصراً برقم (3307) انظر ((التحفة)) برقم (14927)»
حدیث نمبر: 481
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني زهير بن حرب ، حدثنا جرير ، عن عمارة بن القعقاع ، عن ابي زرعة ، عن ابي هريرة ، قال: وضعت بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم قصعة من ثريد ولحم، فتناول الذراع، وكانت احب الشاة إليه، فنهس نهسة، فقال: " انا سيد الناس يوم القيامة، ثم نهس اخرى، فقال: انا سيد الناس يوم القيامة، فلما راى اصحابه لا يسالونه، قال: الا تقولون كيفه؟ قالوا: كيفه يا رسول الله؟ قال: يقوم الناس لرب العالمين "، وساق الحديث بمعنى حديث ابي حيان، عن ابي زرعة وزاد في قصة إبراهيم، فقال: وذكر قوله: في الكوكب هذا ربي سورة الانعام آية 76، وقوله لآلهتهم: بل فعله كبيرهم هذا سورة الانبياء آية 63، وقوله: إني سقيم سورة الصافات آية 89، قال: والذي نفس محمد بيده، إن ما بين المصراعين من مصاريع الجنة إلى عضادتي الباب لكما بين مكة وهجر، او هجر ومكة، قال: لا ادري اي ذلك، قال.وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: وُضِعَتْ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَصْعَةٌ مِنْ ثَرِيدٍ وَلَحْمٍ، فَتَنَاوَلَ الذِّرَاعَ، وَكَانَتْ أَحَبَّ الشَّاةِ إِلَيْهِ، فَنَهَسَ نَهْسَةً، فَقَالَ: " أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ثُمَّ نَهَسَ أُخْرَى، فَقَالَ: أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَلَمَّا رَأَى أَصْحَابَهُ لَا يَسْأَلُونَهُ، قَالَ: أَلَا تَقُولُونَ كَيْفَهْ؟ قَالُوا: كَيْفَهْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ "، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ أَبِي حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ وَزَادَ فِي قِصَّةِ إِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ: وَذَكَرَ قَوْلَهُ: فِي الْكَوْكَبِ هَذَا رَبِّي سورة الأنعام آية 76، وقَوْله لِآلِهَتِهِمْ: بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا سورة الأنبياء آية 63، وقَوْله: إِنِّي سَقِيمٌ سورة الصافات آية 89، قَالَ: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ إِلَى عِضَادَتَيِ الْبَابِ لَكَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَهَجَرٍ، أَوْ هَجَرٍ وَمَكَّةَ، قَالَ: لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، قَالَ.
‏‏‏‏ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک پیالہ رکھا ثرید کا (ثرید ایک کھانا ہے جو روٹی اور شوربہ ملا کر بناتے ہیں) اور گوشت۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دست کا گوشت لیا اور وہ بہت پسند تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری بکری میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار منہ سے اس کو نوچا، پھر فرمایا: میں لوگوں کا سردار ہوں گا قیامت کے دن۔ پھر دوبارہ نوچا اور فرمایا: میں لوگوں کا سردار ہوں گا قیامت کے دن۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ آپ کے صحابہ کچھ نہیں پوچھتے تو خود ہی فرمایا: تم یہ نہیں پوچھتے کیوں کر؟ انہوں نے کہا: کیوں کر؟ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ سب کھڑے ہوں گے اللہ کے سامنے۔ اور بیان کیا حدیث کو اسی طرح جیسے اوپر گزری ابراہیم علیہ السلام کے قصہ میں اتنا زیادہ ہے کہ انہوں نے بیان کیا (ان جھوٹ کی باتوں کو جو دنیا میں کہیں تھیں) ستارے کو کہا تھا یہ میرا رب ہے (اگرچہ ابراہیم علیہ السلام کا یہ اعتقاد نہ تھا۔ کیونکہ پیغمبروں سے شرک صادر نہیں ہوتا مگر کافروں کے الزام دینے کیلئے پہلے تارے کو اللہ قرار دیا پھر چاند کو پھر سورج کو جب وہ ڈوب گئے تو کہا: یہ اللہ نہیں ہو سکتے اللہ وہ ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا) بتوں کو آپ علیہ السلام نے توڑا تھا اور کہا تھا: بڑے بت نے توڑا۔ بیمار نہ تھے اور کہا تھا: میں بیمار ہوں، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے جنت کے دونوں پٹوں میں دروازوں کی چوکھٹ تک اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور ہجر کے درمیان ہے یا یوں کہا جتنا ہجرا اور مکہ کے درمیان ہے۔ مجھے یاد نہیں کیوں کر کہا۔ (یعنی ہجر کو پہلے کہا یا مکے کو۔)

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (14914)»
حدیث نمبر: 482
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن طريف بن خليفة البجلي ، حدثنا محمد بن فضيل ، حدثنا ابو مالك الاشجعي ، عن ابي حازم ، عن ابي هريرة وابو مالك ، عن ربعي ، عن حذيفة ، قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يجمع الله تبارك وتعالى الناس، فيقوم المؤمنون، حتى تزلف لهم الجنة، فياتون آدم، فيقولون: يا ابانا، استفتح لنا الجنة، فيقول: وهل اخرجكم من الجنة، إلا خطيئة ابيكم آدم، لست بصاحب ذلك، اذهبوا إلى ابني إبراهيم خليل الله، قال: فيقول إبراهيم: لست بصاحب ذلك، إنما كنت خليلا من وراء، وراء، اعمدوا إلى موسى عليه السلام، الذي كلمه الله تكليما، فياتون موسى عليه السلام، فيقول: لست بصاحب ذلك، اذهبوا إلى عيسى، كلمة الله وروحه، فيقول عيسى عليه السلام: لست بصاحب ذلك، فياتون محمدا صلى الله عليه وسلم، فيقوم فيؤذن له، وترسل الامانة والرحم، فتقومان جنبتي الصراط يمينا وشمالا، فيمر اولكم كالبرق، قال: قلت: بابي انت وامي، اي شيء كمر البرق؟ قال: الم تروا إلى البرق كيف يمر ويرجع في طرفة عين، ثم كمر الريح، ثم كمر الطير وشد الرجال تجري بهم اعمالهم، ونبيكم قائم على الصراط؟ يقول: رب سلم، سلم، حتى تعجز اعمال العباد، حتى يجيء الرجل، فلا يستطيع السير إلا زحفا، قال: وفي حافتي الصراط كلاليب معلقة مامورة باخذ من امرت به، فمخدوش ناج، ومكدوس في النار "، والذي نفس ابي هريرة بيده، إن قعر جهنم لسبعون خريفا.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفِ بْنِ خَلِيفَةَ الْبَجَلِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مَالِكٍ الأَشْجَعِيُّ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبُو مَالِكٍ ، عَنْ رِبْعِيٍّ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَجْمَعُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى النَّاسَ، فَيَقُومُ الْمُؤْمِنُونَ، حَتَّى تُزْلَفَ لَهُمُ الْجَنَّةُ، فَيَأْتُونَ آدَمَ، فَيَقُولُونَ: يَا أَبَانَا، اسْتَفْتِحْ لَنَا الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ: وَهَلْ أَخْرَجَكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ، إِلَّا خَطِيئَةُ أَبِيكُمْ آدَمَ، لَسْتُ بِصَاحِبِ ذَلِكَ، اذْهَبُوا إِلَى ابْنِي إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ اللَّهِ، قَالَ: فَيَقُولُ إِبْرَاهِيمُ: لَسْتُ بِصَاحِبِ ذَلِكَ، إِنَّمَا كُنْتُ خَلِيلًا مِنْ وَرَاءَ، وَرَاءَ، اعْمِدُوا إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ، الَّذِي كَلَّمَهُ اللَّهُ تَكْلِيمًا، فَيَأْتُونَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ بِصَاحِبِ ذَلِكَ، اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى، كَلِمَةِ اللَّهِ وَرُوحِهِ، فَيَقُولُ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلامُ: لَسْتُ بِصَاحِبِ ذَلِكَ، فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُومُ فَيُؤْذَنُ لَهُ، وَتُرْسَلُ الأَمَانَةُ وَالرَّحِمُ، فَتَقُومَانِ جَنَبَتَيِ الصِّرَاطِ يَمِينًا وَشِمَالًا، فَيَمُرُّ أَوَّلُكُمْ كَالْبَرْقِ، قَالَ: قُلْتُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، أَيُّ شَيْءٍ كَمَرِّ الْبَرْقِ؟ قَالَ: أَلَمْ تَرَوْا إِلَى الْبَرْقِ كَيْفَ يَمُرُّ وَيَرْجِعُ فِي طَرْفَةِ عَيْنٍ، ثُمَّ كَمَرِّ الرِّيحِ، ثُمَّ كَمَرِّ الطَّيْرِ وَشَدِّ الرِّجَالِ تَجْرِي بِهِمْ أَعْمَالُهُمْ، وَنَبِيُّكُمْ قَائِمٌ عَلَى الصِّرَاطِ؟ يَقُولُ: رَبِّ سَلِّمْ، سَلِّمْ، حَتَّى تَعْجِزَ أَعْمَالُ الْعِبَادِ، حَتَّى يَجِيءَ الرَّجُلُ، فَلَا يَسْتَطِيعُ السَّيْرَ إِلَّا زَحْفًا، قَالَ: وَفِي حَافَتَيِ الصِّرَاطِ كَلَالِيبُ مُعَلَّقَةٌ مَأْمُورَةٌ بِأَخْذِ مَنْ أُمِرَتْ بِهِ، فَمَخْدُوشٌ نَاجٍ، وَمَكْدُوسٌ فِي النَّارِ "، وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي هُرَيْرَةَ بِيَدِهِ، إِنَّ قَعْرَ جَهَنَّمَ لَسَبْعُونَ خَرِيفًا.
‏‏‏‏ سیدنا ابو ہریرہ اور حذیفہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا۔ مسلمان کھڑے رہیں گے یہاں تک کہ جنت ان کے پاس آ جائے گی، پھر وہ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے: ابا جان جنت کو کھول دو ہمارے لیے، وہ کہیں گے: جنت سے تم کو نکالا کس نے میرے ہی گناہ نے تو نکالا اب مجھ سے یہ کام نہیں ہو سکتا البتہ تم میرے بیٹے ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ ابراہیم علیہ السلام کہیں گے: مجھ سے یہ کام نہیں ہو سکتا، میں اللہ کا دوست تھا، لیکن پرے پرے (یعنی مجھے اللہ جلا جلالہ سے اتنی نزدیکی نہیں ہوئی کہ کوئی آڑ نہ رہے بلکہ دو حجاب تھے نہ میں نے اس سے بات کی بلاواسطہ نہ اس کو دیکھا) تم جاؤ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جن سے اللہ تعالیٰ نے بات کی وہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے وہ کہیں گے: میں اس لائق نہیں تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اللہ کا کلمہ ہیں اور اس کی روح ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام کہیں گے: میرا یہ کام نہیں پھر وہ سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوں گے اور آپ کو اجازت ملے گی (جنت کھولنے کی) اور امانت اور ناتے کو بھیج دیا جائے گا۔ وہ پل صراط کے داہنے اور بائیں کھڑے ہو جائیں گے تم میں سے پہلا شخص پل صراط سے اس طرح پار ہو گا جیسے بجلی۔ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہمارے ماں باپ صدقے ہوں، بجلی کی طرح کون سی چیز گزرتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے بجلی کو نہیں دیکھا۔ وہ کیسے گزر جاتی ہے اور پھر لوٹ آتی ہے پل مارنے میں پھر جیسے ہوا جاتی ہے پھر جیسے پرندہ اڑتا ہے۔ پھر جیسے آدمی دوڑتا ہے، اپنے اپنے اعمال کے موافق اور تمہارے پیغمبر علیہ السلام پل پر کھڑے ہوں گے وہ کہیں گے: یا اللہ! بچا، یا اللہ! بچا۔ یہاں تک کہ اعمال کا زور گھٹ جائے گا۔ (یعنی عمدہ اعمال والے نکل جائیں گے اور وہ لوگ رہ جائیں جن کے نیک عمل کم ہیں۔ ان کو پار ہونا دشوار ہو گا) اور ایک شخص آئے گا وہ چل نہ سکے گا مگر گھسٹتا ہوا اور اس پل کے دونوں طرف آنکڑے ہوں گے لٹکتے ہوئے جس کو حکم ہو گا اس کو پکڑ لیں گے پھر بعض آدمی چھل چھلا کر نجات پا جائے گا۔ اور بعض آدمی الٹ پلٹ کر جہنم میں گر پڑے گا۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں ابو ہریرہ کی جان ہے جہنم کی گہرائی ستر برس کی راہ ہے۔ .

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (3311 و 13400)»

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.