كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب 5. باب فِي فَضْلِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: باب: سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی فضیلت۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی اور نیند اچاٹ ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کاش میرے اصحاب میں سے کوئی نیک بخت رات بھر میری حفاظت کرے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اتنے میں ہم کو ہتھیاروں کی آواز معلوم ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کون ہے؟“ آواز آئی سعد بیٹا ابو وقاص کا یا رسول اللہ! میں حاضر ہوا ہوں آپ کے پاس پہرہ دینے کے لیے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خراٹے کی آواز سنی۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ تشریف لانے کے زمانے میں ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم جاگتے رہے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند نہیں آئی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کاش کہ میرے صحابہ میں سے کوئی ایسا نیک بخت آدمی ہوتا جو رات بھر میری حفاظت کرتا۔“ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم اسی حالت میں تھے کہ ہم نے اسلحہ کی آواز سنی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ عرض کیا: سعد بن ابی وقاص! اتنا زیادہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ”تم کیوں آئے؟“، وہ بولے: مجھے ڈر ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر، تو میں آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرنے کے لیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا کی، پھر سو گئے۔ اور ابن رمح کی روایت میں ہے کہ ہم نے کہا: یہ کون ہے؟
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی اور نیند جاتی رہی۔ سلیمان بن ہلال کی حدیث کی مانند ذکر کیا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماں باپ کو کسی کے لیے جمع نہیں کیا (یعنی یوں نہیں فرمایا کہ میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہو ں) مگر سعد بن مالک رضی اللہ عنہ (یعنی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) کے لیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن ان سے فرمایا ”تیر مار اے سعد! فدا ہوں تجھ پر ماں باپ میرے۔“
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کی مانند روایت کرتے ہیں۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کیا اپنے ماں باپ کو میرے لیے احد کے دن۔
يحيى بن سعيد سے ان اسناد کے تحت مروی ہے۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن ان کے لیے جمع کیا اپنے ماں باپ کو . سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک شخص تھا مشرکوں میں سے جس نے جلا دیا تھا مسلمانوں کو (یعنی بہت مسلمانوں کو قتل کیا تھا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیر مار اے سعد! فدا ہوں تجھ پر ماں باپ میرے .“ میں نے اس کے لیے ایک تیر نکالا جس میں پیکان نہ تھا وہ اس کی پسلی میں لگا اور گرا اور اس کی شرمگاہ کھل گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر ہنسے یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچلیوں کو دیکھا۔
مصعب بن سعد سے روایت ہے، انہوں نے سنا اپنے باپ سے کہ ان کے باب میں قرآن کی کئی آیتیں اتریں۔ ان کی ماں نے قسم کھائی تھی کہ ان سے کبھی بات نہ کرے گی جب تک وہ اپنا دین (یعنی اسلام کا دین) نہ چھوڑیں گے اور نہ کھائے گی نہ پیئے گی۔ وہ کہنے لگی: اللہ تعالیٰ نے تجھےحکم دیا ہے ماں باپ کی اطاعت کرنے کا اور میں تیری ماں ہوں تجھ کو حکم کرتی ہوں اس بات کا، پھر تین دن تک یوں ہی رہی کچھ کھایا نہ پیا یہاں تک کہ اس کو غش آ گیا آخر ایک بیٹا اس کا جس نام عمارہ تھا کھڑا ہوا اور اس کو پانی پلایا۔ وہ بددعا کرنے لگی سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے لیے، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «وَوَصَّيْنَا الإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَاوَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا» (۳۱-لقمان: ۱۴-۳۲) ”اور ہم نے حکم دیا آدمی کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کا لیکن وہ اگر زور ڈالیں تجھ پر کہ شریک کرے تو میرے ساتھ اس چیز کو جس کا تجھےعلم نہیں تو مت مان ان کی بات (یعنی شرک مت کر) اور رہ ان کے ساتھ دنیا میں دستور کے موافق۔“ اور ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سا غنیمت کا مال ہاتھ آیا اس میں ایک تلوار بھی تھی وہ میں نے لے لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا۔ میں نے عرض کیا: یہ تلوار مجھ کو انعام دے دیجئیے اور میرا حال آپ جانتے ہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو وہیں رکھ دے جہاں سے تو نے اٹھائی ہے۔“ میں گیا اور میں نے قصد کیا، پھر اس کو گدام میں ڈال دوں لیکن میرے دل نے مجھے ملامت کی اور میں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹا۔ میں نے عرض کیا کہ یہ تلوارمجھے دے دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے فرمایا: ”رکھ دے اسی جگہ جہاں سے تو نے اٹھائی ہے۔“ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ» (۸-الأنفال: ۱) ”تجھ سے پوچھتے ہیں لوٹ کی چیزوں کو۔“ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں بیمار ہوا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، میں نے کہا: مجھ کو اجازت دیجئیے میں اپنے مال کو بانٹ دوں جس کو چاہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ مانا، میں نے کہا: اچھا آدھا مال بانٹ دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ مانا، میں کہا: اچھا تہائی مال بانٹ دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو رہے، پھر یہی حکم ہوا کہ تہائی مال تک بانٹنا درست ہے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک بار میں انصار اور مہاجرین کے کچھ لوگوں کے پاس گیا انہوں نے کہا: آؤ ہم تم کو کھانا کھلائیں گے اور شراب پلائیں گے اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی۔ میں ان کے پاس گیا ایک باغ میں۔ وہاں ایک اونٹ کے سر کا گوشت بھونا گیا تھا اور شراب کی ایک مشک رکھی تھی میں نے گوشت کھایا اور شراب پی ان کے ساتھ، وہاں مہاجرین اور انصار کا ذکر آیا، میں نے کہا: مہاجرین انصار سے بہتر ہیں ایک شخص نے سری کا ایک ٹکڑا لیا اور مجھے مارا، میرے ناک میں زخم لگا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ» (۵-المائدہ: ٩٠) ”شراب، جوا، تھان اور پانسے یہ سب نجس اور شیطان کے کام ہیں۔“
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے باب میں چار آیتیں اتریں، پھر بیان کیا حدیث کو اسی طرح جیسے او پر گزری۔ شعبہ نے زیادہ کیا کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: آخر لوگ میری ماں کو کھانا کھلانا چاہتے تو اس کا منہ ایک لکڑی سے کھولتے، پھر کھانا اس کے منہ میں ڈالتے۔ اس روایت میں یہ ہے کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی ناک پر مارا اور ان کی ناک چڑ گئی، پھر ان کی ناک ہمیشہ چڑی رہی۔
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، یہ آیت «وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ» (۶-الأنعام: ٥٢) ”مت دور کر ان لوگوں کو جو پکارتے ہیں اپنے مالک کو صبح اور شام۔“ چھ آدمیوں کے باب میں اتری۔ ان میں، میں تھا اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ مشرک کہتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو اپنے نزدیک رکھتے ہیں۔
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم چھ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ مشرکوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو اپنے پاس سے بھیج دیجئیے یہ جرأت نہ کر یں گے ہم پر، ان لوگوں میں میں بھی تھا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ تھے اور ایک شخص ہذیل کا تھا اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اور دو شخص اور تھے جن کا میں نام نہیں لیتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو اللہ نے چاہا وہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دل ہی دل میں باتیں کیں، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ» (الأنعام: ۵۲) ”مت ہٹا ان لوگوں کو جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح اور شام اور چاہتے ہیں اس کی رضامندی۔“
ابوعثمان سے روایت ہے، ان دنوں میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لڑتے تھے (کا فروں سے) بعض دن کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہ رہا سوائے طلحہ اور سعد رضی اللہ عنہما کے۔
|