الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب الصللاة
نماز کے مسائل
178. باب قَصْرِ الصَّلاَةِ في السَّفَرِ:
سفر میں قصر نماز پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1544
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن ابن جريج، عن ابن ابي عمار، عن عبد الله بن بابيه، عن يعلى بن امية قال: قلت لعمر بن الخطاب: قال الله تعالى: فليس عليكم جناح ان تقصروا من الصلاة إن خفتم سورة النساء آية 101، فقد امن الناس. قال: عجبت مما عجبت منه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "صدقة تصدق الله بها عليكم، فاقبلوها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَيْهِ، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ قَالَ: قُلْتُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ إِنْ خِفْتُمْ سورة النساء آية 101، فَقَدْ أَمِنَ النَّاسُ. قَالَ: عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللَّهُ بِهَا عَلَيْكُمْ، فَاقْبَلُوهَا".
یعلی بن امیہ نے کہا: میں نے سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ الله تعالیٰ نے فرمایا ہے: «أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ ...» [نساء: 101/4] یعنی اگر تمہیں کافروں کے ستانے کا ڈر ہو تو کوئی حرج نہیں کہ تم نماز قصر پڑھو۔ اب تو امن قائم ہو گیا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے اس پر تعجب ہوا تھا جس پر تمہیں تعجب ہے (لیکن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اللہ کا صدقہ ہے جو اس نے تم کو دیا ہے، لہٰذا اس کو قبول کرو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1546]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 686]، [أبوداؤد 1199]، [ترمذي 3034]، [نسائي 1432]، [ابن ماجه 1065]، [أبويعلی 181]، [ابن حبان 2739]، [ابن الجارود 146، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1543)
یعنی ہر چند کہ قصر صرف خوف کے وقت میں مشروع ہوا، لیکن الله تعالیٰ نے اپنی عنایت اور فضل سے بندوں پر آسانی کے واسطے ہر سفر میں قصر درست قرار دیا، اب تم کو قصر کرنا ضروری ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1545
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن الاوزاعي، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم "صلى بمنى ركعتين"، وابو بكر ركعتين، وعمر ركعتين، وعثمان ركعتين، صدرا من إمارته، ثم اتمها بعد ذلك.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "صَلَّى بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ"، وَأَبُو بَكْرٍ رَكْعَتَيْنِ، وَعُمَرُ رَكْعَتَيْنِ، وَعُثْمَانُ رَكْعَتَيْنِ، صَدْرًا مِنْ إِمَارَتِهِ، ثُمَّ أَتَمَّهَا بَعْدَ ذَلِكَ.
سالم نے اپنے والد (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ منیٰ میں (ظہر عصر قصر کر کے) دو دو رکعت قصر پڑھی، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ان کے دور خلافت کے شروع میں دو ہی رکعت پڑھی تھی لیکن بعد میں آپ اسے پوری پڑھنے لگے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1547]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1082، 1655]، [مسلم 690]، [أبويعلی 2794]، [ابن حبان 2743]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1544)
منیٰ میں رباعی نماز کو دو رکعت قصر پڑھنا ہی صحیح ہے اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر بہت سے صحابہ نے نکیر کی تھی، اور ان کے اتمام صلاة کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔
دیکھئے: [شرح بخاري مولانا راز رحمه الله 1655] ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1546
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن محمد بن المنكدر، عن انس بن مالك، قال: "صلينا الظهر مع النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة اربعا، وصلينا معه بذي الحليفة ركعتين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: "صَلَّيْنَا الظُّهْرَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ أَرْبَعًا، وَصَلَّيْنَا مَعَهُ بِذِي الْحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْنِ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں ظہر کی چار رکعت نماز پڑھی، اور ذوالحلیفہ میں آپ نے عصر دو رکعت (قصر) پڑھی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1548]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1089]، [مسلم 690/11]، [ترمذي 546]، [نسائي 468]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1547
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن محمد، حدثنا سفيان بن عيينة، عن إبراهيم بن ميسرة، ومحمد بن المنكدر، انهما سمعا انس بن مالك يقول: "صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة اربعا، وبذي الحليفة ركعتين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، أَنَّهُمَا سَمِعَا أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: "صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ أَرْبَعًا، وَبِذِي الْحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْنِ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مکہ جاتے ہوئے) مدینہ میں ظہر کی نماز چار رکعت اور ذوالحلیفہ میں عصر دو رکعت پڑھی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1549]»
تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1548
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان بن عيينة، قال: سمعت الزهري يذكر، عن عروة بن الزبير، عن عائشة، قالت:"إن الصلاة اول ما فرضت ركعتين فاقرت صلاة السفر، واتمت صلاة الحضر". فقلت: ما لها كانت تتم الصلاة في السفر؟ قال: إنها تاولت كما تاول عثمان.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ يَذْكُرُ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:"إِنَّ الصَّلَاةَ أَوَّلَ مَا فُرِضَتْ رَكْعَتَيْنِ فَأُقِرَّتْ صَلَاةُ السَّفَرِ، وَأُتِمَّتْ صَلَاةُ الْحَضَرِ". فَقُلْتُ: مَا لَهَا كَانَتْ تُتِمُّ الصَّلَاةَ فِي السَّفَرِ؟ قَالَ: إِنَّهَا تَأَوَّلَتْ كَمَا تَأَوَّلَ عُثْمَانُ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نماز پہلے پہل جب فرض کی گئی تو دو ہی رکعت تھی جو سفر میں باقی رکھی گئی اور حضر (یعنی اقامت کے دوران) میں بڑھا دی گئی، (امام زہری نے عروہ سے کہا): پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سفر میں کیوں پوری نماز پڑھتی تھیں؟ کہا: ان کی بھی وہی رائے تھی جو سیدنا عثان رضی اللہ عنہ کی رائے تھی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1550]»
اس حدیث کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 350]، [مسلم 685]، [أبوداؤد 1198]، [نسائي 554]، [أبويعلی 2638]، [ابن حبان 2736]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1545 سے 1548)
امیر المؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جب منیٰ میں پوری نماز پڑھی تو کہا کہ میں نے اس لئے ایسا کیا کہ یہاں بہت سے مسلمان جمع ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ نماز کو دو رکعت ہی سمجھ لیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی حج کے موقع پر نماز پوری پڑھی اور قصر نہیں کیا حالانکہ آپ مسافر تھیں، کیونکہ آپ قصر کو رخصت تصور کرتی تھیں اور اتمام ان کے نزدیک بہتر تھا۔
اس باب کی تمام احادیث سے سفر میں قصر ثابت ہوا جبکہ امام مالک و شافعی رحمہما اللہ نے اتمام کو بھی جائز کہا اور قصر ہی افضل کہا ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور بہت سے صحابہ نے قصر کو واجب کہا۔
صاحب التحفۃ مبارکپوری رحمہ اللہ نے کہا: سننِ نبوی کے فدائیوں کے لئے ضروری ہے کہ سفر میں قصر ہی کو لازم پکڑیں گرچہ یہ غیر واجب ہے پھر بھی اتباعِ سنّت کا تقاضہ یہی ہے کہ سفر میں قصر کیا جائے اور اتمام نہیں کیا جائے، اور اس بارے میں کوئی تاویل مناسب نہیں۔
جیسا کہ پہلی حدیث میں گذرا یہ الله تعالیٰ کی طرف سے صدقہ ہے جس کوقبول کرنا بہتر ہے۔
قصر نماز کب جائز ہوتی ہے۔
اس کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔
صحیح یہ ہے کہ جس خروج پر سفر کا اطلاق ہو یعنی انسان تیاری کرے اور دوسری جگہ چند دن قیام کا ارادہ رکھے، اور اس سفر کی مسافت شیخ الحدیث عبیداللہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے 48 میل ہاشمی پر اتفاق کیا ہے، اور شیخ محمد صالح العثیمین رحمہم اللہ نے موجودہ مسافات میں 83 کلومیٹر کو مسافتِ قصر مانا ہے یعنی اتنی مسافت پر آدمی سفر کر کے جائے تو اس کے لئے قصر جائز ہے، اور ایام کے بارے میں صحیح یہ ہے کہ کسی آدمی کا ارادہ دوسرے شہر میں جو مذکورہ بالا مسافت پر ہو پوری نماز پڑھے، ہاں اگر تین دن یا چار دن سے زیادہ رکنے کا ارادہ ہو تو پوری نماز پڑھے لیکن اگر تین دن یا چار دن کا ارادہ تھا لیکن کام نہیں ہو سکا اور زیادہ دن رکنا پڑے تو جب تک قیام رہے قصر کرنا جائز ہے۔
نیز سفر پر نکلنے کے بعد آبادی سے باہر نکل جائے اور نماز کا وقت ہو جائے تو بھی قصر جائز ہے، جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے مکۃ المکرّمہ جاتے ہوئے ذوالحلیفہ میں دو رکعت عصر کی نماز پڑھی اور یہ مقام مدینہ سے تقریباً سات کیلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.