الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب الصللاة
نماز کے مسائل
143. باب في الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ:
عصر کے بعد دو رکعت پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1472
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن الربيع، حدثنا شعبة، عن ابي إسحاق، قال: سمعت الاسود بن يزيد، ومسروقا، يشهدان على عائشة، انها شهدت على رسول الله صلى الله عليه وسلم انه لم يكن عندها يوما إلا "صلى هاتين الركعتين". قال ابو محمد: تعني: بعد العصر.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، قَالَ: سَمِعْتُ الْأَسْوَدَ بْنَ يَزِيدَ، وَمَسْرُوقًا، يَشْهَدَانِ عَلَى عَائِشَةَ، أَنَّهَا شَهِدَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهَا يَوْمًا إِلَّا "صَلَّى هَاتَيْنِ الرَّكْعَتَيْنِ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: تَعْنِي: بَعْدَ الْعَصْرِ.
ابواسحاق نے کہا: میں نے اسود بن یزید اور مسروق سے سنا، انہوں نے گواہی دی کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے گواہی دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی ان کے گھر میں تشریف لاتے تو یہ دو رکعت ضرور پڑھتے تھے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ان کی مراد عصر کی نماز کے بعد کی دو رکعتیں تھیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1474]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 593]، [مسلم 835]، [أبوداؤد 1279]، [نسائي 575 وغيرهم]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1473
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا فروة بن ابي المغراء، حدثنا علي بن مسهر، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: "ما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين بعد العصر قط".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ قَطُّ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد دو رکعتیں کبھی نہیں چھوڑیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1475]»
یہ حدیث بھی صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 591]، [مسلم 832]، [ترمذي 184]، [أبويعلی 4489]، [ابن حبان 1570]، [الحميدي 194]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو متفق عليه
حدیث نمبر: 1474
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن عيسى، حدثنا عبد الله بن وهب، اخبرني عمرو بن الحارث، عن بكير بن الاشج، عن كريب مولى ابن عباس، ان عبد الله بن عباس، وعبد الرحمن بن ازهر، والمسور بن مخرمة، ارسلوه إلى عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا:"اقرا عليها السلام منا جميعا، وسلها عن الركعتين بعد العصر، وقل: إنا اخبرنا انك تصلينهما، وقد بلغنا ان النبي صلى الله عليه وسلم نهى عنهما. قال ابن عباس: وكنت اضرب مع عمر بن الخطاب الناس عليهما. قال كريب: فدخلت عليها وبلغتها ما ارسلوني به. فقالت: سل ام سلمة. فخرجت إليهم فاخبرتهم بقولها، فردوني إلى ام سلمة بمثل ما ارسلوني إلى عائشة. فقالت ام سلمة: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عنهما، ثم رايته يصليهما، اما حين صلاهما، فإنه صلى العصر ثم دخل وعندي نسوة من بني حرام من الانصار، فصلاهما، فارسلت إليه الجارية، فقلت: قومي بجنبه، فقولي: ام سلمة تقول: يا رسول الله، الم اسمعك تنهى عن هاتين الركعتين، واراك تصليهما؟ فإن اشار بيده فاستاخري عنه، قالت: ففعلت الجارية، فاشار بيده فاستاخرت عنه، فلما انصرف، قال:"يا ابنة ابي امية، سالت عن الركعتين بعد العصر؟ إنه اتاني ناس من عبد القيس بالإسلام من قومهم، فشغلوني عن الركعتين اللتين بعد الظهر، فهما هاتان". سئل ابو محمد عن هذا الحديث، فقال: انا اقول بحديث عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم:"لا صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس، ولا بعد الفجر حتى تطلع الشمس".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَزْهَرَ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، أَرْسَلُوهُ إِلَى عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا:"اقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنَّا جَمِيعًا، وَسَلْهَا عَنْ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَقُلْ: إِنَّا أُخْبِرْنَا أَنَّكِ تُصَلِّينَهُمَا، وَقَدْ بَلَغَنَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهُمَا. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَكُنْتُ أَضْرِبُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ النَّاسَ عَلَيْهِمَا. قَالَ كُرَيْبٌ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهَا وَبَلَّغْتُهَا مَا أَرْسَلُونِي بِهِ. فَقَالَتْ: سَلْ أُمَّ سَلَمَةَ. فَخَرَجْتُ إِلَيْهِمْ فَأَخْبَرْتُهُمْ بِقَوْلِهَا، فَرَدُّونِي إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ بِمِثْلِ مَا أَرْسَلُونِي إِلَى عَائِشَةَ. فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْهُمَا، ثُمَّ رَأَيْتُهُ يُصَلِّيهِمَا، أَمَّا حِينَ صَلَّاهُمَا، فَإِنَّهُ صَلَّى الْعَصْرَ ثُمَّ دَخَلَ وَعِنْدِي نِسْوَةٌ مِنْ بَنِي حَرَامٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَصَلَّاهُمَا، فَأَرْسَلْتُ إِلَيْهِ الْجَارِيَةَ، فَقُلْتُ: قُومِي بِجَنْبِهِ، فَقُولِي: أُمُّ سَلَمَةَ تَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَمْ أَسْمَعْكَ تَنْهَى عَنْ هَاتَيْنِ الرَّكْعَتَيْنِ، وَأَرَاكَ تُصَلِّيهِمَا؟ فَإِنْ أَشَارَ بِيَدِهِ فَاسْتَأْخِرِي عَنْهُ، قَالَتْ: فَفَعَلَتْ الْجَارِيَةُ، فَأَشَارَ بِيَدِهِ فَاسْتَأْخَرَتْ عَنْهُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ:"يَا ابْنَةَ أَبِي أُمَيَّةَ، سَأَلْتِ عَنْ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ؟ إِنَّهُ أَتَانِي نَاسٌ مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ بِالْإِسْلَامِ مِنْ قَوْمِهِمْ، فَشَغَلُونِي عَنْ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ، فَهُمَا هَاتَانِ". سُئِلَ أَبُو مُحَمَّد عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: أَنَا أَقُولُ بِحَدِيثِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"لَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَلَا بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ".
کریب (ابن عباس کے آزاد کردہ غلام) سے مروی ہے کہ سیدنا ابن عباس، سیدنا عبدالرحمٰن بن الازہر، اور سیدنا سعود بن مخرمہ رضی اللہ عنہم نے انہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا اور کہا کہ ان سے ہم سب کا سلام کہنا اور عصر کی نماز کے بعد کی دو رکعت کے بارے میں پوچھنا اور کہنا کہ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ آپ بھی یہ رکعت پڑھتی ہیں حالانکہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث پہنچی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اور عصر کے بعد نماز پڑھنے پر میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ لوگوں کو مارا تھا، کریب نے کہا: میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کو ان لوگوں کا پیغام پہنچایا تو انہوں نے کہا: جاؤ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھو، چنانچہ میں ان لوگوں کے پاس واپس آیا اور انہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا جواب سنا دیا، پھر انہوں نے مجھے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس وہی پیغام لے کر بھیجا جو پیغام لے کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا تھا۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے روکتے تھے لیکن ایک دن میں نے آپ کو عصر کے بعد دو رکعت پڑھتے دیکھا لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں رکعتیں پڑھیں تو آپ نے عصر کی نماز پڑھی پھر آپ میرے پاس تشریف لائے، اس وقت میرے پاس انصار کے قبیلہ بنو حرام کی کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ یہ دو رکعتیں پڑھیں تو میں نے لونڈی سے کہا: جاؤ آپ کے پاس کھڑی ہو جانا اور کہنا کہ ام سلمہ کہتی ہیں: اے اللہ کے رسول! میں نے تو آپ کو ان سے ممانعت کرتے سنا ہے، پھر میں کیا دیکھتی ہوں کہ آپ خود پڑھ رہے ہیں؟ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے اشارہ کریں تو تھوڑا ٹھہر جانا، چنانچہ لونڈی نے ایسا ہی کیا اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا تو وہ آپ سے پیچھے ہٹ کر ٹھہر گئی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو فرمایا: اے ابوامیہ کی بیٹی! تم نے مجھ سے نماز عصر کے بعد دو رکعت پڑھنے کے بارے میں پوچھا؟ بات یہ ہے کہ میرے پاس عبدالقیس کے کچھ لوگ اسلام لانے کے لئے آ گئے تھے اور ان کے ساتھ گفتگو کرنے میں میں ظہر کے بعد کی دو رکعتیں نہیں پڑھ سکا تھا، سو یہ وہی دو رکعتیں ہیں۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: اس حدیث کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کہا: میری رائے وہی ہے جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے واضح ہے: «لا صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس ولا بعد الفجر حتى تطلع الشمس» - ترجمہ کے لئے دیکھئے: رقم (1471)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1476]»
اس روایت کی سند صحیح، حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1233]، [مسلم 834]، [أبوداؤد 1273]، [أبويعلی 6946]، [ابن حبان 1574، 1576]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1471 سے 1474)
یعنی عصر کے بعد غروبِ آفتاب تک کوئی نماز نہیں ہے۔
اور یہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھی ہیں چاہے وہ ظہر کی دو رکعت ہوں یا عصر کے بعد کی، جیسا کہ حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں ہے تو یہ فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، اور عام قاعدے کے مطابق قول «لَاصَلَاةَ» اس فعل پر مقدم ہوگا، اس بارے میں امام دارمی رحمہ اللہ کی رائے راجح ہے۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.