الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب الصللاة
نماز کے مسائل
151. باب صَلاَةِ الضُّحَى:
صلاۃ الضحیٰ کا بیان
حدیث نمبر: 1491
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، قال: عمرو بن مرة انباني، قال: سمعت ابن ابي ليلى يقول: ما اخبرنا احد انه راى النبي صلى الله عليه وسلم يصلي الضحى غير ام هانئ، فإنها ذكرت انه يوم فتح مكة "اغتسل في بيتها، ثم صلى ثمان ركعات، قالت: ولم اره صلى صلاة اخف منها، غير انه يتم الركوع والسجود".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ أَنْبَأَنِي، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي لَيْلَى يَقُولُ: مَا أَخْبَرَنَا أَحَدٌ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَى غَيْرُ أُمِّ هَانِئٍ، فَإِنَّهَا ذَكَرَتْ أَنَّهُ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ "اغْتَسَلَ فِي بَيْتِهَا، ثُمَّ صَلَّى ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، قَالَتْ: وَلَمْ أَرَهُ صَلَّى صَلَاةً أَخَفَّ مِنْهَا، غَيْرَ أَنَّهُ يُتِمُّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ".
ابن ابی لیلی کہتے ہیں: ہمیں سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کے سوا کسی نے یہ اطلاع نہیں دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی نماز پڑھی، چنانچہ انہوں نے (سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے) ذکر کیا کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر میں غسل کیا، پھر آٹھ رکعت نماز پڑھی اور کہا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی اتنی ہلکی نماز پڑھتے نہیں دیکھا، ہاں اس نماز میں بھی رکوع و سجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے اطمینان سے اچھی طرح کرتے رہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1493]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1176]، [مسلم 336/80]، [أبوداؤد 1291]، [ترمذي 474]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1492
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن عبد المجيد، حدثنا مالك، عن ابي النضر، ان ابا مرة مولى عقيل بن ابي طالب اخبره، انه سمع ام هانئ بنت ابي طالب تحدث انها ذهبت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفتح فوجدته يغتسل، وفاطمة بنته تستره بثوب. قالت: فسلمت عليه وذلك ضحى. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"من هذه؟". فقلت: انا ام هانئ. قالت: "فلما فرغ من غسله، قام فصلى ثمان ركعات ملتحفا في ثوب واحد، ثم انصرف". فقلت: يا رسول الله، زعم ابن امي انه قاتل رجلا اجرته: فلان بن هبيرة. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"قد اجرنا من اجرت يا ام هانئ"..(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، أَنَّ أَبَا مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أُمَّ هَانِئٍ بِنْتَ أَبِي طَالِبٍ تُحَدِّثُ أَنَّهَا ذَهَبَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ فَوَجَدَتْهُ يَغْتَسِلُ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُهُ تَسْتُرُهُ بِثَوْبٍ. قَالَتْ: فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَذَلِكَ ضُحًى. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"مَنْ هَذِهِ؟". فَقُلْتُ: أَنَا أُمُّ هَانِئٍ. قَالَتْ: "فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِهِ، قَامَ فَصَلَّى ثَمَانَ رَكَعَاتٍ مُلْتَحِفًا فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ انْصَرَفَ". فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَعَمَ ابْنُ أُمِّي أَنَّهُ قَاتِلٌ رَجُلًا أَجَرْتُهُ: فُلَانَ بْنَ هُبَيْرَةَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ يَا أُمَّ هَانِئٍ"..
سیدہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ وہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل کرتے ہوئے پایا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پردہ کئے ہوئے تھیں، سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے سلام کیا اور یہ چاشت کا وقت تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کون ہے؟ میں نے کہا: کہ میں ام ہانی ہوں، انہوں نے کہا: پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل سے فارغ ہوئے تو کھڑے ہو کر آٹھ رکعت نماز ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے ادا کیں، پھر نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں جائے بھائی کا خیال ہے کہ وہ اس شخص کو قتل کر ڈالے گا جس کو میں نے پناہ دی ہے، وہ فلاں بن ہبیرہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ام ہانی جس کو تم نے پناہ دی ہم نے اس کو پناہ دے دی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1494]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 357]، [مسلم 336/82]، [الموطأ 31]، [ترمذي 1579]، [نسائي 225]، [ابن ماجه 465]، [ابن حبان 1188، 2537]، [موارد الظمآن 631]، [الحميدي 333]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1490 سے 1492)
سیدہ اُم ہانی رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد بہن اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی سگی بہن تھیں۔
اس حدیث میں محل شاہد جاشت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آٹھ رکعت نماز پڑھنا ہے جس کے بارے میں بعض علماء نے کہا کہ یہ چاشت کی نماز ہے اور بعض نے کہا فتح مکہ کی نمازِ شکرانہ تھی۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1493
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن عباس الجريري، عن ابي عثمان، عن ابي هريرة، قال:"اوصاني خليلي بثلاث لا ادعهن حتى اموت: الوتر قبل ان انام، وصوم ثلاثة ايام من كل شهر، ومن الضحى ركعتين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبَّاسٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:"أَوْصَانِي خَلِيلِي بِثَلَاثٍ لَا أَدَعُهُنَّ حَتَّى أَمُوتَ: الْوِتْرِ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ، وَصَوْمِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَمِنْ الضُّحَى رَكْعَتَيْنِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے میرے جانی دوست (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تین چیزوں کی وصیت کی ہے جنہیں میں موت سے پہلے نہیں چھوڑ سکتا۔ سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی، ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھنے کی، اور دو رکعت چاشت کی نماز پڑھنے کی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1495]»
اس روایت کی یہ سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1178]، [مسلم 721]، [نسائي 1676]، [أبويعلی 6226]، [ابن حبان 2536]، [أحمد 229/2]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1492)
اشراق اور ضحیٰ (چاشت) کے بارے میں سلف و خلف میں اختلاف ہے۔
آیا یہ ایک ہی ہیں یا دونوں نمازیں الگ الگ ہیں، ان روایات کی روشنی میں واضح یہی ہوتا ہے کہ دونوں الگ الگ ہیں۔
اشراق سورج نکلنے کے بعد اور چاشت جب سورج بلندی پر آجائے زوال سے پہلے تک، مذکورہ بالا حدیث میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت تھی کہ اس کو کبھی نہ چھوڑیں، عبدالرحمٰن بن ابی یعلیٰ کا یہ کہنا کہ سیدہ اُم ہانی رضی اللہ عنہا کے سوا کسی نے ضحیٰ کی نماز کا ذکر نہیں کیا، تو ثبوت کے لئے ایک راوی کی ہی روایت و شہادت کافی ہے، اور جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چاشت کے نوافل پڑھتے نہیں دیکھا تو علماء نے اس کو ان کے عدم علم پر محمول کیا ہے، نیز یہ کہ اشراق کی نماز دو یا چار رکعت اور چاشت دو رکعت سے آٹھ رکعت تک ہیں۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.