الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْحَجِّ حج کے احکام و مسائل 39. باب اسْتِحْبَابِ الرَّمَلِ فِي الطَّوَافِ وَالْعُمْرَةِ وَفِي الطَّوَافِ الأَوَّلِ فِي الْحَجِّ: باب: حج اور عمرہ کے پہلے طواف میں رمل کرنے کا استحباب۔
نافع نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلا طواف کرتے بیت اللہ کا تو تین بار جلدی جلدی چلتے چھوٹے چھوٹے قدم رکھ کے اور چار بار عادت کے موافق چلتے اور بہیا کے آنے کی جگہ میں دوڑتے جب سعی کرتے صفا اور مروہ میں اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کرتے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حج میں یا عمرہ میں پہلے پہل طواف کرتے تو تین بار دوڑتے اور چار بار چلتے اور دو رکعت نماز پڑھتے پھر سعی کرتے صفا اور مروہ کی۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب مکہ آتے اور حجر اسود کو چھوتے اور پہلے پہل طواف کرتے تین بار دوڑتے سات پھیروں سے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تین چکروں میں رمل کیا اور چار چکروں میں عام چلے۔
نافع نے کہا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حجر اسود سے حجر اسود تک رمل کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حجر اسود سے رمل کرتے دیکھا یہاں تک کہ اس تک تین چکر پورے ہو گئے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود تک تین چکروں میں رمل کیا۔
سیدنا ابوالطفیل رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ مجھے خبر دو بیت اللہ کے طواف کی اور اس میں تین بار رمل کرنا اور چار بار چلنا سنت ہے؟ اس لئے کہ تمہارے لوگ کہتے ہیں کہ وہ سنت ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ جھوٹے بھی ہیں سچے بھی۔ میں نے کہا: اس کا کیا مطلب؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے یار بیت اللہ شریف کا طواف نہیں کر سکتے ضعف اور لاغری کے سبب سے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسد رکھتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ تین بار رمل کریں اور چار بار عادت کے موافق چلیں (غرض یہ ہے کہ انہوں نے اس فعل کو جو سنت مؤکدہ مقصود سمجھا یہ ان کا جھوٹ تھا باقی بات سچ تھی) پھر میں نے کہا: ہم کو خبر دیجئیے صفا اور مروہ کے بیچ میں سعی کرنے کی سوار ہو کر کے وہ سنت ہے کہ آپ کے لوگ اسے سنت کہتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: وہ سچے بھی ہیں جھوٹے بھی۔ میں نے کہا: اس کا مطلب؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ تشریف لائے تو لوگوں کی بھیڑ بھاڑ ایسی ہوئی کہ کنواری عورتیں تک باہر نکل آئیں اور لوگ کہنے لگے کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش خلقی ایسی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے لوگ مارے نہ جاتے تھے (یعنی ہٹو، بچو، بغل ہو، چلو جیسے امرائے دنیا کے واسطے ہوتی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہ ہوتی تھی) پھر جب لوگوں کی بڑی بھیڑ ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو گئے اور پیدل سعی کرنا افضل ہے (یعنی اتنا جھوٹ ہوا کہ جو چیز بضرورت ہوتی تھی اس کو بلاضرورت سنت کہا باقی سچ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعی سوار ہو کر کی ہے)۔
کہا مسلم نے اور روایت کی ہم سے محمد بن مثنیٰ نے، ان سے یزید نے، ان سے جریری نے، اسی اسناد سے اسی روایت کی مانند مگر اس میں یوں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ مکہ کے لوگ حاسد تھے اور یہ نہیں کہا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسد رکھتے تھے۔
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے چند الفاظ کے فرق کے ساتھ۔
سیدنا ابوالطفیل رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے انہوں نے کہا کہ مجھ سے بیان کرو۔ ابوالطفیل نے کہا: میں نے مروہ کے پاس ایک اونٹنی پر دیکھا اور لوگوں کا ان پر ہجوم تھا تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہاں وہی تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ہانکتے نہ تھے اور نہ ہٹاتے تھے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب مکہ میں آئے اور ان کو ضعیف کر دیا تھا مدینہ کے بخار نے اور مشرکوں نے کہہ رکھا تھا کہ کل تمہارے پاس ایسے لوگ آئیں گے کہ ان کو بخار نے ضعیف و ناتواں کر رکھا ہے اور بڑی ناتوانی ان کو ہو گئی ہے اور مشرکین حطیم کے پاس بیٹھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ تین شوط میں رمل کریں اور مابین حجر اسود کے اور رکن یمانی کے عادت کے موافق چلیں کہ مشرکوں کو ان کی قوت و طاقت معلوم ہو۔ سو مشرکوں نے کہا کہ تم نے تو کہا تھا کہ ان کو بخار نے ناتواں کر دیا ہے یہ تو ایسے ایسے طاقتور ہیں کہ کیا کہنا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ان کو ساتوں پھیروں میں رمل کا حکم نہیں دیا تو اس لیے کہ تھک جائیں گے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کے طواف میں اس لئے رمل کیا کہ مشرک لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت دیکھیں۔
|